بھارت کے وزیر خارجہ نے امریکی قانون سازوں کی جانب سے ایک خاتون رکن کانگرس کو ملاقاتی ٹیم سے نکالنے کے مطالبے سے انکار کے بعد کانگریس کے سینئر ارکان کے ساتھ اپنی ملاقات منسوخ کر دی ہے۔ قانون ساز خاتون نے کشمیر پر بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی تھی۔
اس فیصلے سے کشمیر کے تنازع پر بھارتی حساسیت کا اظہار ہوتا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بھارتی کشمیر میں فوجی دستوں میں اضافہ کرنے، کرفیو ناٖفذ کرنے اور بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی رسائی کاٹنے کے اپنے فیصلوں کا دفاع کرتے ہیں۔
واشنگٹن میں اس ہفتے اپنے دورے میں بیرونی امور کے وزیر سبرامنیم جے شنکر نے امریکی ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین ری پبلیکن ایلٹ ایل اینجل، ایک اور سینئر ری پبلیکن قانون ساز مائیکل مک کول اور پرمیلا جیپال سمیت کئی امریکی رہنماؤں سے ملاقات کرنی تھی۔
بھارتی عہدے داروں نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ اگر قانون سازوں کے گروپ میں جیپال بھی شامل ہوئیں تو جے شنکر ان سے ملاقات نہیں کریں گے۔ جیپال ایک قرارداد کی حمایت کر رہی ہیں جس میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مواصلات پر عائد تمام پابندیاں اٹھائے، انٹرنیٹ بحال کرے، اور مذہبی آزادیوں کا تحفظ کرے۔
جیپال نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین اینجل نے بھارت کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اپنے خلاف کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس وقت صورت حال بات چیت کے لیے موافق نہیں ہے، کیونکہ آپ کسی کو یہ حکم نہیں دے سکتے کہ ملاقات میں کون ہونا چاہیے اور کسے نہیں ہونا چاہیے۔
واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے سے جب اخبار نے ردعمل کے لیے رابطہ کیا تو اس نے جواب نہیں دیا۔
انٹرنیٹ تک رسائی کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے بتایا کہ پیر کے روز انٹرنیٹ کی بندش کو 134 دن گزر چکے تھے جو اس جمہوری ملک میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن ہے۔
مودی کی حکومت اپنی ان پابندیوں کا یہ کہتے ہوئے دفاع کرتی ہے کہ سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے یہ ضروری ہیں۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو، جنہوں نے بدھ کے روز جے شنکر سے ملاقات کی تھی، بھارت کے شہریت کے ترمیمی قانون کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ یہ قانون مذہبی آزادیوں کے فروغ کے خلاف ہے جو ان کے دور میں امریکہ کی سفارت کاری کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔
اس موقع پر نیوز کانفرنس میں جےشنکر نے یہ کہتے ہوئے شہریت کے نئے قانون کا دفاع کیا کہ یہ اقدامات کچھ ملکوں کی مذہبی اقلیتوں کی ضرورتوں کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔ جیپال کا کہنا ہے کہ اس قانون نے ملک کی متنوع سیکولر جمہوریت میں، جو اس کا فخر ہے، چھید کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنوری میں کشمیر پر اپنی قرارداد لانے کی کوشش کریں گی۔