رسائی کے لنکس

بھارت کے یومِ جمہوریہ پر وادیِ کشمیر میں ہڑتال اور گرفتاریاں


(فائل)
(فائل)

اطلاعات کے مطابق، مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر کے لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا۔ سرینگر کا تاریخی چوراہا لال چوک، کئی ملحقہ علاقے اور شہر کا پُرانا حصہ فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہے تھے

ہفتے کو بھارت کے سترویں یومِ جمہوریہ پر وادیِ کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی جس سے شورش زدہ علاقے میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔

بھارت کے یومِ جمہوریہ کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے ایک اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی، جس کا کہنا ہے کہ ’’بھارت نے ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد کشمیریوں کی آزادی کو سلب کر رکھا ہے اس لئے اسے اپنے آپ کو جمہوریہ کہلانے کا حق ہے نہ یومِ جمہوریہ منانے کا‘‘۔

بھارت ہر سال 26 جنوری کو اپنا یومِ جمہوریہ مناتا ہے۔

یہ دن 26 جنوری 1950ء کی خوشی میں منایا جاتا ہے جب بھارت کی دستور ساز اسمبلی نے ملک کے لیے نئے جمہوری دستور کی منظوری دی تھی اور اس کے ساتھ ہی بھارت ایک جمہوریہ بن گیا تھا۔

یومِ جمہوریہ کے موقع پر پوری ریاست میں غیر معمولی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے، بی الخصوص حساس علاقوں میں جن میں گرمائی صدر مقام سرینگر کے کئی حصے بھی شامل ہیں۔ مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر کے لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا۔ سرینگر کا تاریخی چوراہا لال چوک، کئی ملحقہ علاقے اور شہر کا پُرانا حصہ فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہے تھے۔

پوری ریاست میں جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو ہی موبائل انٹرنیٹ سروسز کو بند کیا گیا تھا جب کہ ہفتے کو وادی کشمیر میں ریل سروسز حفظِ ماتقدم کے طور پر روک دی گئیں۔

اس سے پہلے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے قائدین اور سرکردہ کارکنوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کیا گیا تھا یا پولیس انہیں پکڑ کر لے گئی۔

عہدیداروں نے بتایا کہ تشدد کے خدشے کے پیش نظر اور مظاہروں کو روکنے کے لئے اس طرح کے اقدامات اٹھانا ناگزیر تھا۔

مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں یومِ جمہوریہ کی سب سے بڑی روایتی تقریب سرینگر کے شیرِ کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقد ہوئی۔

پریڈ پر سلامی ریاستی گورنر کے ایک مشیر خورشید احمد گنائی نے لی اور اس موقع پر اعلیٰ سرکاری عہدیدار اور پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں کے حکام موجود تھے۔ تقریب میں عام لوگوں کی انتہائی قلیل تعداد نے شرکت کی۔ پولیس نے ذرائع ابلاغ کے کئی نمائندوں کو تقریب کو کور کرنے سے روکا۔ کئی ایک صحافیوں اور فوٹو گرافروں کو داخلہ اور سکیورٹی پاس بھی جاری نہیں کئے گئے تھے۔

بعد دوپہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے سرینگر میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا اور یومِ جمہوریہ کی تقریبات کا بلیک آؤٹ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران حفاظتی امور سے متعلق گورنر کے مشیر کے وجے کمار نے معاملے کی تحقیقات کرنے کا یقین دلایا ہے۔

تاہم، یوم جمہوریہ پر ریاست کے سرمائی دارالحکومت جموں میں جشن کا سماں تھا، جہاں کے مولانا آزاد اسٹیدیم میں ہونے والی پریڈ پر گورنر ستیہ پال ملک نے سلامی لی۔ تقریب میں مختلف بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں گورنر نے پاکستان پر ریاست میں امّن و امان میں رخنہ ڈالنے کا الزام لگایا۔

انھوں نے کہا کہ "ہمارا پڑوسی ملک اس ریاست میں امّن اور بھائی چارے کو زق پہنچانے کی لگاتار کوشش کر رہا ہے۔ وہ دہشت گردوں کی بھی مدد کر رہا ہے۔ حد بندی لائن اور بین الاقوامی سرحد (ورکنگ باؤنڈری) پر در اندازی کی بار بار کوششیں ہو رہی ہیں۔ فائر بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں نے سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ سرکار ان لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے ضروری قدم اُٹھا رہی ہے"۔

حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ریاست کے لداخ خطے میں بھی بھارت کے یومِ جمہوریہ کو جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔

اس دوران حفاظتی دستوں نے ہفتے کو سرینگر کے مضافات میں واقع کھنموہ علاقے میں ایک جھڑپ کے دوران دو مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ انھوں نے کہا کہ مارے گئے افراد کی شناخت کی جا رہی ہے۔

عہدیداروں نے یہ بھی بتایا کہ متنازعہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن کے کرشنا گھاٹی پونچھ سیکٹر میں پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے اگلے ٹھکانوں کو ہلکے اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں سے ہدف بنایا۔ تاہم، فائرنگ میں کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔

عہدیداروں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستانی فوج کی اس بلا اشتعال فائرنگ کا موثر جواب دیا گیا۔ پاکستان نے جوابی الزام میں کہا ہے کہ فائرنگ کی پہل بھارتی فوج نے کی جس کا مناسب جواب دے دیا گیا۔

بھارتی عہدیداروں نے یہ بھی بتایا ہے کہ سیالکوٹ–جموں سرحد کے سامبہ علاقے میں ہفتے کو تقریبا" ڈیڑھ بجے صبح بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے ایک در انداز کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان رینجرز سے اس در انداز کی لاش لے جانے کے لئے کہا گیا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اسے مقامی پولیس کے سپرد کیا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG