رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: بچی کے قتل، زیادتی میں ملوث مجرموں کو سزائیں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارتی پنجاب کے شہر پٹھانکوٹ میں قائم کی گئی ایک خصوصی عدالت نے پیر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں جنوری 2018 میں ایک آٹھ سالہ خانہ بدوش بچی کی عصمت دری اور قتل کے کیس میں آٹھ میں سے چھ ملزموں کو مجرم قرار دینے کے بعد تین کو عمر قید اور تین کو پانچ پانچ سال کی قید بامشقت کی سزائیں سنائیں۔

جرم میں براہِ راست شامل جن تین افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ان میں کٹھوعہ کے رسانا گاؤں کا سربراہ سانجی رام جو اُس مندر کا نگراں تھا جہاں جرم کا ارتکاب ہوا تھا، اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریہ اور اُس کا ساتھی پرویش کمار شامل ہیں۔

انہیں مجرمانہ سازش تیار کرنے، اغوا، اجتماعی آبر و ریزی، قتل، ثبوت مٹانے اور مظلوم کو زبردستی نشہ آور ادویات کھلانے جیسے جرائم کا دانستہ مرتکب قرار دیکر ریاست کے ضابطہ تعزیرات رنبیر پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت قتل کرنے کیلئے عمر قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا اور عصمت دری کیلئے پچیس پچیس سال قید کی سزائیں سنائیں۔

ایک اور اسپیشل پولیس افسر سریندر ورما، ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتا کو جرم کے بارے میں ثبوت مٹانے کا مجرم قرار دیکر عدالت نے پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ اس کیس کے ساتویں ملزم، جو نابالغ ہے، کے خلاف الگ سے بچوں کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا جب کہ آٹھویں ملزم کو عدالت نے بری کر دیا۔

رسانہ کی خانہ بدوش کم سن لڑکی 10 جنوری 2018 کو اچانک لاپتا ہو گئی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد اُس کی لاش گاؤں کے مضافات میں جھاڑیوں میں ملی تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی طرف سے کی گئی تحقیقات کے مطابق نشانہ بننے والی لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اُسے مبینہ طور پر نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اُس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔

اس گھناؤنی حرکت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں پولیس نے فوری طور پر مندر کے نگراں سانجی رام اور اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریہ سمیت چھ افراد کو گرفتار کیا تھا۔ مقامی پولیس کے سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو بعد میں کیس سے متعلق ثبوت مٹانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا اور اس کے ساتھ ہی نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کی کرائم برانچ، جسے تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا، چند اور گرفتاریاں عمل میں لائی تھی۔

پولیس نے رات کی تاریکی میں کٹھوعہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے گھر جا کر کیس کے سلسلے میں فردِ جرم دائر کی تھی کیونکہ مقامی ہندو وکلا نے دن کے دوران عدالت کے باہر ہنگامہ کیا تھا اور پولیس کو فردِ جرم دائر کرنے سے زبردستی روکا تھا۔

اس سے پہلے ملزموں کی حمایت میں اور انہیں رہا کرنے کے مطالبے کو منوانے کیلئے علاقے میں کئی جلسے کیے گئے اور جلوس نکالے گئے تھے۔ اس طرح کے ایک جلوس کے دوران شرکا نے بھارت کا قومی پرچم لہرایا تھا جس پر بعض حلقوں نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ ریاست کی اُس وقت کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ملزموں کی حمایت کرنے کی مہم کو شرمناک اور مظاہروں کے دوران بھارت کا قومی پرچم لہرانے کو توہین آمیز قرار دیا تھا۔

فردِ جرم کے مطابق آصفہ کے ساتھ کی گئی زیادتی اور قتل کا مقصد مقامی مسلمانوں کو جو بکروال اور گجر طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اقلیت میں ہیں ترکِ سکونت کرنے پر مجبور کرنا تھا۔

تاہم، اس گھناؤنے واقعے کے خلاف جہاں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا تھا وہیں اس کی گونج بھارت اور بھارت کے باہر بھی سنائی دی تھی۔

اس کیس نے جب ایک بڑے سیاسی تنازعے کی شکل اختیار کر لی اور مختلف حلقوں کی طرف سے ملزموں پر ریاست کی کسی عدالت میں مقدمہ چلانے کی صورت میں انصاف کی فراہمی کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا تو بھارتی سپریم کورٹ کے احکامات پر 31 مئی 2018 کو پٹھانکوٹ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں کیس کی ان کیمرہ اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی تھی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG