بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور قائدین نے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر امیت شاہ کے اس بیان پر شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے کہ آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کو منسوخ کرانا اس کا یعنی بی جے پی کا منشور ہے اور ایسا 2020 میں ہو گا۔
بھارت میں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے زیرِ اہتمام منعقدہ تقریب میں بولتے ہوئے امیت شاہ نے کہا دفعہ 35اے کو اب تک اس لئے منسوخ نہیں کرایا جا سکا کیونکہ بی جے پی کو بھارتی پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا میں ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا "ہم نے دفعہ 35اے کو ختم کرانے کے لئے ملک کے عوام سے وعدہ کر رکھا ہے۔ یہ بی جے پی کا 1950 سے منشور رہا ہے۔ ایسا اب تک اس لئے نہیں ہوسکا کیونکہ ہماری راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ دفعہ 35اے کو 2020 میں ہٹالیا جائے گا"۔
دفعہ 35اے کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائدادیں خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل ہے۔ نیز اس آئینی شِق کے تحت جموں و کشمیر کے پشتنی یا قدیمی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لئے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعئین کرنے کا اختیار ریاستی اسمبلی کو حاصل ہے۔
دفعہ 35اے بھارتی آئین ہی کی دفعہ 370 کی ایک ذیلی دفعہ ہے جسے 1954 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو بھارت میں خصوصی آئینی پوزیشن حاصل ہے۔ ان دونوں دفعات کی آئینی درستگی کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا ہے۔ بھارت کے وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی نے بھی حال ہی میں اپنے ایک بلاگ میں دفعہ 35اے کو ختم کرانے کے مطالبے کی بالواسطہ تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آئینی لحاظ سے ایک کمروز دفعہ ہے اور یہ ریاست کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
کشمیری سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کی یہ یکساں رائے ہے کی آئینِ ہند میں متنازعہ کشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن کو ختم کرانے کی کوششوں کا مقصد مسلم اکثریتی علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے۔
امیت شاہ کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ایک سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے کہا "دفعہ 35اے اور دفعہ 370 کو نقصان پہنچانے کے عمل سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی بنیاد ہل جائے گی۔" ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا "دفعہ 35اے کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کے بدترین نتائج برآمد ہونگے"۔ انہوں نے مزید کہا "اگر بی جے پی دفعہ 35اے یا دفعہ 370 کو نقصان پہنچاتی ہے تو اسے کشمیر کو بھولنا ہوگا۔ یہ دفعات منسوخ کرائی جاتی ہیں تو ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق بھی ختم ہو گا"۔
اس دوران بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان ریاست کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائین پر ایک بار پھر جھڑپیں ہوئی ہیں۔ بھارتی عہدیداروں کے مطابق پاکستانی فوج نے پیر کو علی الصباح اور پھر دوبارہ بعد دوپہر، کنٹرول لائین کے کرشنا گھاٹی، منکوٹ، شاہ پور، گلپور، دیگوار اور کیرنی علاقوں میں بھارتی فوج کی چوکیوں اور شہری علاقوں کو مارٹر توپوں اور ہلکے ہتھیاروں سے ہدف بنایا جس کے نتیجے میں ایک کمسن لڑکی پانچ سالہ صوبیہ شریف ہلاک اور کم سے کم دس شہری اور سات فوجی زخمی ہو گئے۔ بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے جموں میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستانی فوج کی طرف سے یہ سرحدوں پر نومبر 2003 سے نافذ فائر بندی کے سمجھوتے کی "صریحا" بِلا اشتعال "خلاف ورزی" تھی جس کا موثر جواب دیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی الزام پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
جموں میں پولیس عہدیداروں نے بتایا کہ پاکستانی مارٹر شیلنگ میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ میں کنٹرول لائین کے مختلف مقامات پر پیر کو ایک پانچ سالہ لڑکی اور بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے بی ایس ایف کا ایک انسپکٹر ہلاک اور بی ایس ایف کے چار اور بھارتی فوج کا ایک سپاہی اور دس شہری زخمی ہو گئے۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ کی انتظامیہ نے کم سے کم نصف درجن سرحدی علاقوں میں تعلیمی اداروں کو تا حکمِ ثانی بند کردیا ہے۔ عہدیداروں نے بتایا کی ایسا احتیاتا" کیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی فوج کے طرف سے داغے گئے مارٹر شیل شاہ پور، گُنتریاں اور قصبہ کیرنی کے شہری علاقوں میں آگرے جس سے مقامی آبادیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
ادھر پیر کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے لسی پورہ گاؤں میں بھارتی حفاظتی دستوں کے ساتھ ایک مقابلے میں چار مشتبہ عسکریت پسند ہلاک اور تین فوجی اور ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ طرفین کے درمیان لڑائی علاقے میں حفاظتی دستوں کی طرف سے شروع کئے گئے ایک فوجی آپریشن کے دوران بھڑک اٹھی تھی۔ عہدیداروں نے ہلاک ہونے والے مشتبہ عسکریت پسندوں کی شناخت توصیف احمد ایتو، ظفر احمد پال، عاقب احمد کمہار اور محمد شفیع بٹ کے طور پر کی ہے۔