رسائی کے لنکس

بھارت میں ہجوم کے ہاتھوں پر تشدد ہلاکتوں کے واقعات میں اضافہ


فائل: گاؤ کشی کے الزام پر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے رکبار خان کی بیوہ اور خاندان کی عورتیں دلاسہ دیتے ہوئے۔ 24 جولائی 2018، کولگن گاوں، بھارت
فائل: گاؤ کشی کے الزام پر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے رکبار خان کی بیوہ اور خاندان کی عورتیں دلاسہ دیتے ہوئے۔ 24 جولائی 2018، کولگن گاوں، بھارت

بھارت میں ہجوم کے تشدد میں لوگوں کو ہلاک کرنے کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چار ساڑھے چار برسوں میں درجنوں افراد ہجوم کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔

حکومت کی جانب سے ایسے واقعات کو روکنے کی یقین دہانیوں کے باوجود صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور واٹس ایپ پر فیک نیوز یعنی غلط خبریں پوسٹ کرنے کی وجہ سے بھی ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کے سبب بھیڑ کی غنڈہ گردی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا رجحان تیز ہوتا جا رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ مذہبی معاملات میں بہت حساس ہیں لہٰذا ان کے جذبات کو ہوا دینا بہت آسان ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اس رجحان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ہجوم خود بخود اکٹھا نہیں ہوتا بلکہ اس کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ وہ گائے کے مبینہ ذبیحے کی افواہ پر اکٹھا ہونے والی بھیڑ اور اس کے ہاتھوں بے قصوروں کی ہلاکت کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا دادری، الور، لاتے ہار اور دوسری جگہوں پر بھیڑ از خود اکٹھا ہو گئی۔ نہیں بلکہ اسے اکٹھا کیا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں بھیڑ کی ذہنیت کو سمجھنا ہوگا۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے ہم ہجوم کے ہاتھوں قتل کی وارداتیں نہیں روک سکیں گے۔

ان کے بقول جو لوگ مشتعل ہجوم میں شامل ہوتے ہیں وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کے جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش بھی مسلسل کی جاتی ہے۔ وہ بلند شہر کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں یہ کہہ کر بھیڑ اکٹھا کی گئی کہ ایک گائے ذبح کی گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم فورم فار سول رائٹس کے چیئرمین سید منصور آغا وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب سیاسی دباو کے تحت کارروائی نہیں کی جائے گی تو یہی ہو گا۔ ان کے مطابق آج پولیس اور حکومت کا دبدبہ ختم ہو گیا ہے۔ لوگوں کا قانون پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اسی لیے وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے ذریعے قتل یعنی ماب لینچنگ کے واقعات میں مجرموں کو سزا دینے کا کوئی قانون بھی نہیں بنا ہے۔ اس کے علاوہ نفرت انگیز تقاریر بھی اس کی وجہ بنتی ہیں۔

دریں اثنا بہار میں دو الگ الگ واقعات میں ہجوم کے ہاتھوں تین افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔

ارریہ ضلع میں ایک 55 سالہ شخص کابل میاں کو جانور چوری کے الزام میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا گیا۔ جبکہ نالندہ ضلع میں آر جے ڈی کے ایک سیاست دان کے قتل سے مشتعل ہجوم نے ایک گھر پر حملہ کر کے پندرہ سالہ رنجن یادو اور سولہ سالہ شانتو ملکر کو ہلاک کر دیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG