رسائی کے لنکس

ہریانہ: 'ہندو مہاپنچایت' میں مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل، مزار نذر آتش


فائل فوٹو
فائل فوٹو
بھارت کی ریاست ہریانہ میں گوڑگاؤں کے سیکٹر 57 میں اتوار کے روز دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود ایک ’ہندو مہاپنچایت‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوؤں سے اپیل کی گئی کہ وہ مسلمانوں کا سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کریں۔
ہریانہ کے ضلع نوح میں 31 جولائی کو پرتشدد واقعات کے دوارن گوڑ گاؤں کے اسی سیکٹر میں واقع ایک مسجد پر حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں نائب امام ہلاک ہو گئے تھے۔ مذکورہ پنچایت مسجد کے قریب نگھارا گاؤں میں منعقد ہوئی۔ پنچایت نے مذکورہ مسجد کو بھی وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
مہاپنچایت میں بعض مقررین کی جانب سے مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کے بعد ایک ہدایت جاری کی گئی جس میں ہندوؤں سے کہا گیا کہ وہ مسلم دکان داروں کا بائیکاٹ کریں اور ہندو دکان داروں سے خرید و فروخت شروع کر دیں۔
ہدایت کے مطابق اگر کوئی شخص دکان یا مکان کرائے پر لینا چاہے تو اس کا شناختی کارڈ چیک کریں اور کسی مسلمان کو دکان یا مکان کرائے پر نہ دیں۔ یہاں تک کہ گوشت کی دکان بھی ہندو کھولیں۔ کسی مسلمان کو گھریلو ملازم رکھنے کے بجائے ہندو کو ملازمت دیں۔
مہاپنچایت نے مسجد کے نائب امام کے قتل کے الزام میں گرفتار ہندو نوجوانوں کو بے قصور قرار دیا اور ان کی رہائی کے لیے ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیا۔ بعض مقررین نے کہا کہ اگر گرفتار شدگان کو رہا نہ کیا گیا تو گوڑگاؤں میں ٹریفک کو جبراً روک دیا جائے گا۔
شدت پسند ہندو تنظیم بجرنگ دل کے رہنما کلبھوشن بھاردواج نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ گوڑگاؤں میں ہزاروں مسلم حجام، بڑھئی، سبزی فروش، مکینک اور کیب ڈرائیور ہیں۔ جنہیں ہمیشہ سپورٹ کیا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ یقینی بنایا جائے کہ ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ کیوں کہ ان کے بقول انہوں نے شہر کا امن تباہ کیا ہے۔
گوڑگاؤں کے سینئر پولیس عہدے دار وکاس کوشک نے خبر رساں ادارے 'اے این آئی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنچایت کے منتظمین نے پرامن پنچایت کی یقین دہانی کرائی تھی۔
تاہم انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود اور پولیس کی اجازت کے بغیر مہا پنچایت کیوں منعقد ہوئی اور پولیس نے اسے کیوں نہیں روکا۔
مزار نذر آتش
خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق گوڑگاؤں کے سیکٹر 37 میں اتوار اور پیر کی شب ایک مزار نذر آتش کر دیا گیا تھا جس کا مقدمہ مقامی تھانے میں درج کر لیا گیا ہے۔
مزار کے متولی گھسیٹے رام کی جانب سے درج مقدمے کے مطابق پانچ سے چھ نوجوانوں نے مزار کو نذر آتش کیا اور اس عمل سے لوگوں کے اعتقاد کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس کی وجہ سے فساد بھڑکنے کا خطرہ ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ملزمان کی شناخت اور انہیں گرفتار کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔
ہندو مسلم فسادات: بھارتی ریاست ہریانہ میں کیا ہو رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:20 0:00
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کی ایک چار رکنی ٹیم نے سیکٹر 57 کا دورہ کیا جہاں مسجد پر حملہ کیا گیا تھا ۔ پارٹی نے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی مذمت کی اور کہا کہ بی جے پی حکومت میں مسلمانوں کو منظم انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انتظامیہ نے سی پی آئی کے ایک وفد کو نوح جانے سے روک دیا۔ اس پر پارٹی کے رکن پارلیمان بنوئے وِسوَم نےبرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت میں آنے جانے کی آزادی بھی ممنوع ہو گئی ہے۔
بلڈوزر کارروائی پر حکمِ امتناع
پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ نے ضلع نوح میں املاک کے انہدام کی کارروائی پر از خود نوٹس لیتے ہوئے انہدامی کارروائی کو روکنے کے احکامات دیے ہیں۔
جسٹس جی ایس سندھاوالیہ اور جسٹس ہرپریت کور جیون کے ڈویژن بینچ نے اس معاملے میں ہریانہ حکومت کو نوٹس جاری کرکے اس سے جواب طلب کیا ہے۔
یاد رہے کہ 31 جولائی کو وشو ہندو پریشد کی ایک ریلی کے دوران نوح میں فساد بھرک اٹھا تھا جس میں چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بعدازاں تشدد کے واقعات قرب و جوار کے علاقوں میں بھی پھیل گئے تھے۔
ریاستی حکومت نے کشیدہ حالات کے بعد نوح میں مبینہ تجاوزات کو ہٹانے کے لیے بلڈوزر سے انہدامی کارروائی شروع کر دی تھی۔ گزشتہ چار روز سے جاری اس کارروائی میں اب تک 350 سے زائد جھگیاں اور تقریباً 50 پختہ عمارتوں کو منہدم کیا جا چکا ہے۔
مسلم تنظیموں کا الزام ہے کہ مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو تجاوزات کہہ کر منہدم کیا جا رہا ہے۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کے مکانات گرانے سے قبل انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ جب کہ بعض افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں پچھلی تاریخوں کے نوٹس تھمائے گئے ہیں۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے الزام لگایا ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے بلڈوزر کارروائی کا حکم دے کر عدلیہ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ انہوں نے اس کارروائی کو مسلمانوں کو اجتماعی طور پر سزا دینا قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ اس کارروائی کے دوران شہید حسن خان میواتی گورنمنٹ میڈیکل کالج نلہڑ نوح کے پاس واقع دو درجن میڈیکل شاپس کو بھی منہدم کیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سب ناجائز قبضے تھے جنہیں ہٹایا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلم جماعتوں کی جانب سے انہدامی کارروائی اور تشدد کے بعد مسلمانوں کی یک طرفہ گرفتاری کی مذمت کی جا رہی ہے۔ جمعیت علما ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے پولیس کی مبینہ یک طرفہ کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون وانصاف کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے نیشنل سیکرٹری مولانا شفیع مدنی نے کہا کہ ہریانہ میں ہونے والے تشدد کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ جب کہ تشدد میں ملوث سماج دشمن عناصر بے خوف ہیں۔
دوسری جانب ریاستی حکومت مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کارراوئی کے الزام کی تردید کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تشدد برپا کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور ناجائز قبضوں کو بلڈوزر سے منہدم کیا جا رہا ہے۔
  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG