بظاہر ایسی کوئی علامت دکھائی نہیں دیتی جس سے یہ ظاہر ہو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت اور کشیدگی جلد ختم ہو سکے گی۔ لائن آف کنٹرول پر وقفے وقفے سے جاری شدید فائرنگ کے تازہ ترین واقع میں دونوں ملکوں کے تقریباً نو شہری اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاکستان نے صورت حال کے تجزیے کے لیے جمعے کے روز نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا ہے اور بھارتی میڈیا یہ خبریں دے رہا ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت نے اپنی سکیورٹی فورسز کو حالات سے نمنٹے کے لیے فری ہینڈ دے دیا ہے۔
امریکی محکمہٴخارجہ، پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر مسلسل اپنے خدشات ظاہر کر رہا ہے اور دونوں ملکوں میں قائم امریکی سفارت خانے حالات کو معمول پر لانے کے لیے متعلقہ حکام سے رابطے میں ہیں۔
لیکن، خطے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ امکان زیادہ ہے کہ بھارت کے جنوبی علاقے آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے تعین میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ایک سابق اعلیٰ سطحی بھارتی عہدے دار نے، جو بھارت کی سکیورٹی اور سفارت کاری کا گہرا ادارک رکھتے ہیں، اور جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے، خبردار کیا ہے کہ ’آنے والے دنوں میں افراتفری اور بدنظمی کی صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے‘۔
دونوں ملکوں کی اندورنی صورت حال حالیہ بحران کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان میں، ایک بار پھر فوج بھارت کے حوالے سے خارجہ پالیسی کی سمت کے تعین کی ہدایات دے رہی ہے۔ فوج نے اپنے وزیر اعظم نوازشریف کی جانب سے، جو پچھلے سال اقتدار میں آئے، اس وعدے کے بعد کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں گے، اپنی طاقت کو پھر سے منوا لیا ہے، اور وزیر اعظم اندورنی سیاسی ہنگامہ آرائیوں کے نتیجے میں کمزور پڑ گئے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تھینک ٹینک، ولسن سینٹر میں جنوب اور جنوبی مشرقی ایشیائی امور کے سینیئر پروگرام ایسوسی ایٹ Michael Kugelman کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج، بھارت کے ساتھ مفاہمت سے متعلق اپنی حکومت کی پالیسیوں کا حصہ نہیں بنتی اور حالیہ دنوں میں انہوں نے بھارتی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ آج نواز شریف اپنی سیاسی طاقت کو بھارت مخالف لابی سے لڑنے کے خلاف استعمال کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، جن کے مورچے بہت مضبوط ہیں۔ مزید یہ کہ پارٹیوں کے درمیان سیاست میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ حاصل کرنے کی کشمکش نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی ہے جس میں بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کسی بھی کوشش پر کمزوری کی چھاپ لگ جائے گی۔ اس لیے، بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ نواز شریف، جو پہلے ہی بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی بنا پر دباؤ میں ہیں، حالات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھارت سے رابطے کی کوشش کریں گے۔
سرحد کی دوسری جانب کی صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو، جو قوم پرست ہندو ہونے کے دعویدار اور سخت خارجہ پالیسی کے حامی ہیں، اس مہینے بھارت کی دو ریاستوں ہریانہ اور مہاراشٹر میں انتخابات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سنہ 2008 میں ریاست مہاراشٹر کا صدر مقام ممبئی بڑے پیمانے پر سرحد پار دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنا تھا اور ماضی قریب میں اس ریاست کے کئی دوسرے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔
مزید برآں، نریندر مودی کی سیاسی جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی نے مہاراشٹر میں انتہاپسند ہندو قوم پرست جماعت، شیوسینا کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کردیا ہے اور اسے سیاسی میدان میں غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔
اس نوعیت کے سیاسی دباؤ موجودہ بھارتی سیاست دانوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنے پاکستان مخالف بیانات کا اضافہ کر دیں، جس کے اثرات ان کی پالیسیوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے حالیہ دنوں میں مہاراشٹر کی ایک انتخابی ریلی کے دوران کہا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جوابی کارروائیوں سے دشمن چیخ و پکار کر رہا ہے۔
سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ Shashank جو اپنے نام کا صرف پہلا حصہ استعمال کرتے ہیں، کہا ہے کہ ایسے وقت میں جب انتخابات ہو رہے ہوں کوئی بھی لیڈر کمزور دکھائی دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان انتخابات کے بعد، ریاست جموں و کشمیر انتخابات کے مرحلے سے گزرے گی، اس لیے حالات معمول پر آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
جب اس سال مئی میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تھی، زیادہ تر تجزیہ کاروں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ نئی دہلی میں قائم ہونے والی نئی حکومت پاکستان کی جانب ایک جارحانہ پالیسی اختیار کرے گی۔
ولسن سینٹر کے تجزیہ کار Michael Kugelman کہتے ہیں کہ درحقیقت نئی دہلی میں بی جے پی کی قیادت میں قائم حکومت کا مطلب یہ ہے کہ سکیورٹی پالیسی اور بالخصوص پاکستان سے متعلق پالیسی پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں عقابی طرز کی ہوگی۔
اس سال اگست میں مودی حکومت نے پاکستان کے ساتھ سکریٹری سطح کے مذاکرات منسوخ کرکے پاکستان کو یہ سخت پیغام دیا تھا کہ نئی دہلی میں اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ بھارتی وارننگ کے باوجود، بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے مذاکرات سے قبل بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند راہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ بھارت نے اس ملاقات کو پاکستان کی جانب سے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔
پاک بھارت تعلقات امور کے ایک ماہر اور سفیر Teresita Schaffer کے مطابق بھارت کی جانب سے مذاکرات کی منسوخی اس طرز عمل کے خلاف شدید رد عمل تھا جو پاکستانی کئی برسوں سے جاری رکھے ہوئے تھے۔
مودی کی جانب سے مذاکرات کی منسوخی کو بھارت میں بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔
کئی بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو ایک سرخ لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان کے اندر ایسے مضبوط ادارجاتی مفادات موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کا راستہ روکتے ہیں اور انہیں ایک سخت پیغام بھیجا جانا چاہیے۔ قومی سلامتی کے سابق بھارتی مشیر Shiv Shankar Menon نے ایک امریکی تھینک ٹینک بروکنگز میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ہر ایسے وقت میں جب پاکستان میں ایک ایسا لیڈر آتا ہے جو یہ واضح طورپر کہتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے، اسے یا تو لائن آف کنٹرول پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر دہشت گردی کے واقعات کا۔
لیکن خارجہ پالیسی کے ایک معروف پاکستانی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ موجودہ بحران کا الزام صرف پاکستانی فوج کے سر ڈالنا درست نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر طویل عرصے سے یہ خواہش پل رہی ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کی حوصلہ افزائی پر پاکستان کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے، اور حالیہ کارروائیاں اس خواہش کا اظہار اور توضیح ہیں۔
حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر دونوں جانب سخت گیر عناصر نے خارجہ پالیسی کو اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے اور مذاکرات کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں۔