بھارت اور پاکستان کے درمیان بہتر تجارتی تعلقات کی طرف پیش رفت کو دونوں ممالک میں ایک مثبت قدم سمجھا جا رہا ہے۔ایک عام تاثر ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذید تجارت اور سرمایہ کاری سرحد کے دونوں طرف خوشحالی لا سکتی ہے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے منسلک والٹر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر سیاسی جماتیں اوراسٹیبلشمنٹ بھی بھارت کے ساتھ تجارت کے حق میں ہے ۔ دوسری طرف بھارت میں بھی زیادہ تر حلقے پاکستان کے ساتھ تجارت کے خواہاں ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ حکام اپنی حالیہ ملاقاتوں میں دو طرفہ تجارت کو معمول پر لانے کے لیے ہر ممکنہ اقدمات کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے ابھی تفصیلات طے پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر سمٹt گنگولی کا کہنا ہے کے اگرچہ تجارت میں اضافہ جلد ہو سکتا ہے،لیکن بھارتی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنےکے لیے تیار ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔ ان کا کہناہے کہ بھارتی سرمایہ کاروں میں اس وقت تک غیر یقینی رہے گی جب تک پاکستان میں سیاسی صورتحال کچھ مستحکم نہیں ہو جاتی۔
لیکن معاشی سوالات سے بڑھ کر اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے سلسلے میں پیش رفت ہی امید کا سبب ہو سکتی ہے۔ والٹر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ تجارتی تعلقات معمول پر آنے سے دیگر شعبوں میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔
لیکن سمٹ گنگولی کا کہنا تھا کہ ابھی تجارت اور دیگر معاملات پر پاک بھارت مذاکرات اب بھی ایک نازک مرحلے میں ہیں اور بہت آسانی سے کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ممبئی حملے کی یادیں ابھی تازہ ہیں۔اسی طرح کا کوئی اور حملہ خاصے نامواقف حالات پیدا کر سکتا ہے۔ آپ کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ حالات کی بہتری کی جانب ابتدائی قدم ہے۔
اور ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت کے علاوہ کئی پیچیدہ مسائل اب بھی موجود ہیں، جیسے افغانستان کا معاملہ ، پانی کا مسلہ، اور کشمیر۔ لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ دونوں طرف عوام میں امیدیں آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہیں۔