اسلام آباد —
بھارت نے کہا ہے کہ پاکستان سے اُس کے ہاں سفر کرنے والے تمام افراد کے لیے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینا لازمی ہے بصورت دیگر انھیں ملک میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔
اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشن کے ایک بیان کے مطابق 30 جنوری 2014ء کے بعد پاکستان سے بھارت آنے والے بچوں اور بڑوں کو پولیو ویکسین کا ریکارڈ دکھانا ہوگا اور جو کہ سفر کے آغاز سے کم ازکم چھ ہفتے سے زیادہ پرانا نہیں ہونا چاہیئے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینی والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کے اس اقدام پر سرکاری طور پر تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے جمعرات کو اس بارے میں پارلیمان کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان انسداد پولیو کی کوششوں میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
’’پولیو مہم میں رکاوٹیں آرہی ہیں اور جہاں کہیں بھی یہ وائرس سامنے آتا ہے تو اس کا تعلق پاکستان سے بتایا جاتا ہے تو ہمیں پولیو مہم کو کامیاب کرنا ہے تو اس قسم کے عزائم خود ہی ناکام ہو جائیں گے۔‘‘
بھارتی بیان کے مطابق اس اقدام کا مقصد ملک کو اس بیماری سے محفوظ رکھنا ہے جس پر ان کے بقول پوری طرح سے قابو پا لیا گیا ہے۔
مزید برآں بھارت کے لیے سفر کرنے والوں کی اس شرط کا اطلاق ان تمام ملکوں سے آنے والوں پر ہوگا جہاں پولیو وائرس وبائی شکل میں موجود ہے یا اس کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں ان ملکوں کا سفر کرنے والے بھارتی شہریوں کو بھی پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پینا ہوگی۔
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے پولیو سے متعلق پروگرام کے اعلیٰ عہدیدار وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ اگر ملک کو پولیو سے پاک کرنے کی کوششیں ناکام ہوئیں تو پاکستان کو بہت سے ممالک کی طرف سے سفری پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حالیہ دو برسوں میں دنیا کے مختلف ملکوں میں سامنے آنے والے پولیو کیسز میں اس بات کا انکشاف کیا جاچکا ہے کہ اس وائرس کا تعلق پاکستان میں موجود وائرس ہے۔ ان ملکوں میں چین، مصر، فلسطین اور شام شامل ہیں۔
پاکستان میں انسداد پولیو ٹیموں پر شدت پسندوں کے حملوں کے علاوہ شمال مغرب میں قبائلی علاقوں میں ان ٹیموں کی بچوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہر بار دو لاکھ سے زائد بچے یہ قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
رواں سال ملک میں سامنے آنے والے 72 پولیو کیسز میں سے اکثریت خیبر پختونخواہ اور اسے ملحقہ قبائلی علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔
اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشن کے ایک بیان کے مطابق 30 جنوری 2014ء کے بعد پاکستان سے بھارت آنے والے بچوں اور بڑوں کو پولیو ویکسین کا ریکارڈ دکھانا ہوگا اور جو کہ سفر کے آغاز سے کم ازکم چھ ہفتے سے زیادہ پرانا نہیں ہونا چاہیئے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینی والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کے اس اقدام پر سرکاری طور پر تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے جمعرات کو اس بارے میں پارلیمان کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان انسداد پولیو کی کوششوں میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
’’پولیو مہم میں رکاوٹیں آرہی ہیں اور جہاں کہیں بھی یہ وائرس سامنے آتا ہے تو اس کا تعلق پاکستان سے بتایا جاتا ہے تو ہمیں پولیو مہم کو کامیاب کرنا ہے تو اس قسم کے عزائم خود ہی ناکام ہو جائیں گے۔‘‘
بھارتی بیان کے مطابق اس اقدام کا مقصد ملک کو اس بیماری سے محفوظ رکھنا ہے جس پر ان کے بقول پوری طرح سے قابو پا لیا گیا ہے۔
مزید برآں بھارت کے لیے سفر کرنے والوں کی اس شرط کا اطلاق ان تمام ملکوں سے آنے والوں پر ہوگا جہاں پولیو وائرس وبائی شکل میں موجود ہے یا اس کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں ان ملکوں کا سفر کرنے والے بھارتی شہریوں کو بھی پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پینا ہوگی۔
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے پولیو سے متعلق پروگرام کے اعلیٰ عہدیدار وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ اگر ملک کو پولیو سے پاک کرنے کی کوششیں ناکام ہوئیں تو پاکستان کو بہت سے ممالک کی طرف سے سفری پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حالیہ دو برسوں میں دنیا کے مختلف ملکوں میں سامنے آنے والے پولیو کیسز میں اس بات کا انکشاف کیا جاچکا ہے کہ اس وائرس کا تعلق پاکستان میں موجود وائرس ہے۔ ان ملکوں میں چین، مصر، فلسطین اور شام شامل ہیں۔
پاکستان میں انسداد پولیو ٹیموں پر شدت پسندوں کے حملوں کے علاوہ شمال مغرب میں قبائلی علاقوں میں ان ٹیموں کی بچوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہر بار دو لاکھ سے زائد بچے یہ قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
رواں سال ملک میں سامنے آنے والے 72 پولیو کیسز میں سے اکثریت خیبر پختونخواہ اور اسے ملحقہ قبائلی علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔