اسلام آباد —
حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کو پولیو وائرس سے پاک کرنے میں نہ صرف خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے بلکہ رواں سال رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد گزشتہ برس کے اعداد و شمار سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تاہم اس صورتحال کے باوجود حکام نے پولیو وائرس کے دائرہ کار کو محدود کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پولیو سے بچاؤ کے قومی پروگرام کے اعلٰی عہدیدار ڈاکٹر رانا صفدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ برس رپورٹ ہونے والے 58 کیسز کا تعلق ملک کے 28 اضلاع سے تھا جب کہ اس سال سامنے آنے والے 63 کیسز 17 اضلاع سے رپورٹ ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کیسز میں 90 فیصد فاٹا اور ملک کے شمال مغربی علاقوں سے رپورٹ ہوئے جہاں حالیہ برسوں میں سلامتی کے خدشات کے باعث بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔
’’لیبارٹری کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ باقی ملک میں بھی جو پولیو وائرس سامنے آیا اس کا تعلق بھی فاٹا سے ہے۔‘‘
ڈاکٹر صفدر نے بتایا کہ پولیو ویکسین سے متعلق پائے جانے والے غلط مذہبی تصورات کی بنا پر بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کے واقعات میں بہت حد تک کمی آئی ہے اور لیکن اب بھی بڑا چیلنج قبائلی علاقوں تک پولیو ٹیموں کی رسائی ہے۔
’’ہماری کوشش ہے کہ ایسی انٹرنیشنل فورسز جو اس میں کردار ادا کر سکتی ہیں خاص طور پر سعودی حکومت۔۔۔ہماری کوشش ہے کہ امام کعبہ یا تو خود یہاں تشریف لائیں یا پھر ہمیں ان کا کوئی ریکارڈ شدہ پیغام مل سکے (پولیو کے قطرے پلانے سے متعلق) تو وہ ہم ان لوگوں تک پہنچائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے طالبان سے مجوزہ مذاکرات کے تناظر میں ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ ان علاقوں میں پولیو مہم دوبارہ شروع کی جا سکے گی لیکن ان کے بقول اب ایسا ہونا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
پاکستان میں 18 سے 20 نومبر تک انسداد پولیو مہم شروع کی گئی اور اس دوران بھی مختلف علاقوں سے یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ وہاں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جاسکے۔
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
حال ہی میں شام اور مشرق وسطیٰ میں سامنے آنے والے پولیو کیسز کے بارے میں عالمی ادارہ صحت نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس وائرس کا تعلق بھی پاکستان سے ہو سکتا ہے اور یہ ممکنہ طور پر پاکستان سے ہی وہاں تک پہنچا۔
ملک میں پانچ سال تک کی عمر کے تقریباً دو کروڑ 80 لاکھ بچے ہیں جنہیں مقررہ وقت پر پولیو ویکسین دینا از حد ضروری ہے لیکن حالیہ برسوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر انسداد پولیو مہم کے دوران لاکھوں بچے یہ قطرے پینے سے محروم رہ چکے ہیں۔
تاہم اس صورتحال کے باوجود حکام نے پولیو وائرس کے دائرہ کار کو محدود کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پولیو سے بچاؤ کے قومی پروگرام کے اعلٰی عہدیدار ڈاکٹر رانا صفدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ برس رپورٹ ہونے والے 58 کیسز کا تعلق ملک کے 28 اضلاع سے تھا جب کہ اس سال سامنے آنے والے 63 کیسز 17 اضلاع سے رپورٹ ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کیسز میں 90 فیصد فاٹا اور ملک کے شمال مغربی علاقوں سے رپورٹ ہوئے جہاں حالیہ برسوں میں سلامتی کے خدشات کے باعث بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔
’’لیبارٹری کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ باقی ملک میں بھی جو پولیو وائرس سامنے آیا اس کا تعلق بھی فاٹا سے ہے۔‘‘
ڈاکٹر صفدر نے بتایا کہ پولیو ویکسین سے متعلق پائے جانے والے غلط مذہبی تصورات کی بنا پر بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کے واقعات میں بہت حد تک کمی آئی ہے اور لیکن اب بھی بڑا چیلنج قبائلی علاقوں تک پولیو ٹیموں کی رسائی ہے۔
’’ہماری کوشش ہے کہ ایسی انٹرنیشنل فورسز جو اس میں کردار ادا کر سکتی ہیں خاص طور پر سعودی حکومت۔۔۔ہماری کوشش ہے کہ امام کعبہ یا تو خود یہاں تشریف لائیں یا پھر ہمیں ان کا کوئی ریکارڈ شدہ پیغام مل سکے (پولیو کے قطرے پلانے سے متعلق) تو وہ ہم ان لوگوں تک پہنچائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے طالبان سے مجوزہ مذاکرات کے تناظر میں ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ ان علاقوں میں پولیو مہم دوبارہ شروع کی جا سکے گی لیکن ان کے بقول اب ایسا ہونا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
پاکستان میں 18 سے 20 نومبر تک انسداد پولیو مہم شروع کی گئی اور اس دوران بھی مختلف علاقوں سے یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ وہاں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جاسکے۔
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
حال ہی میں شام اور مشرق وسطیٰ میں سامنے آنے والے پولیو کیسز کے بارے میں عالمی ادارہ صحت نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس وائرس کا تعلق بھی پاکستان سے ہو سکتا ہے اور یہ ممکنہ طور پر پاکستان سے ہی وہاں تک پہنچا۔
ملک میں پانچ سال تک کی عمر کے تقریباً دو کروڑ 80 لاکھ بچے ہیں جنہیں مقررہ وقت پر پولیو ویکسین دینا از حد ضروری ہے لیکن حالیہ برسوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر انسداد پولیو مہم کے دوران لاکھوں بچے یہ قطرے پینے سے محروم رہ چکے ہیں۔