رسائی کے لنکس

کئی ہفتوں بعد لاک ڈاؤن میں نرمی، 'دہلی میں تو جیسے زندگی لوٹ آئی ہے'


تقریباً دو ماہ بعد سات جون کی صبح جب دارالحکومت دہلی میں لاک ڈاون کے تحت نافذ پابندیاں نرم کی گئیں تو یوں لگا کہ جیسے قفس کے دروازے کھل گئے ہیں اور پرندوں کو باہر نکلنے اور کھلی فضاؤں میں پرواز کرنے کی آزادی مل گئی ہے۔

دہلی میں کرونا کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے 19 اپریل کو ایک ہفتے کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ جس میں کئی بار توسیع کی گئی جو آخر کار سات جون کو ختم کر دیا گیا۔

اس سے قبل 20 اپریل کو دہلی میں کرونا کے سب سے زیادہ 28,395 کیس رپورٹ ہوئے تھے جب کہ ہلاک شدگان کی تعداد 277 تھی۔ اس سے پہلے دہلی میں اتنے کیسز کبھی بھی رپورٹ نہیں ہوئے تھے۔

لیکن سات جون کو کیسز کی تعداد کم ہو کر 381 تک آ گئی اور اموات کی تعداد 37 رہی۔

اسی طرح جہاں پورے ملک میں کرونا کی یومیہ تعداد چار لاکھ اور اموات کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کر گئی تھی وہیں سات جون کو یہ تعداد کم ہو کر بالترتیب ایک لاکھ 636 اور 2427 تک آ گئی ہے۔

دہلی کے ساتھ ساتھ دوسری ریاستوں میں بھی کرونا کے مثبت کیسز اور ہلاک شدگان کی تعداد میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری ریاستیں بھی لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم کرنے لگی ہیں۔

دو ماہ قیامت صغریٰ تھے'

لیکن اتنے کم اعداد و شمار تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ کرونا کی دوسری لہر کے دوران تقریباً دو ماہ تک پورا ملک قیامت صغریٰ سے گزرتا رہا۔ خاص طور پر دار الحکومت دہلی اور ملک کے اقتصادی مرکز ممبئی میں تو چیخ و پکار اور آہ و بکا کا عالم تھا۔

حالاں کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور تھے لیکن وہ لوگ اپنے گھروں میں کیسے قید رہ سکتے تھے جن کے پیاروں کو کرونا نے دبوچ لیا تھا اور جو اسپتالوں میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔

جنوبی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر کے رہائشی پذیر شہزاد اختر بتاتے ہیں کہ انہوں نے ان دنوں میں اپنی بالکونی سے روزانہ دسیوں بیسیوں جنازے گزرتے دیکھے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہاں سے چند فرلانگ کی دوری پر واقع بٹلہ ہاؤس قبرستان میں بیک وقت کئی کئی جنازے پہنچتے اور جگہ جگہ مردوں کو قبروں میں اتارتے لوگ نظر آتے۔

ایک سماجی تنظیم ”ہم ہندوستانی“ کے صدر محمد نظام بتاتے ہیں کہ انہیں چند روز قبل بٹلہ ہاؤس اور شاہین باغ کے قبرستانوں میں جانے کا موقع ملا تو انہوں نے اتنی تازہ قبریں دیکھیں کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں تھا۔

موت و حیات کی کشمکش

ان دنوں دہلی کا ہر اسپتال موت و حیات کی کشمکش کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ہر اسپتال کے سامنے اپنے عزیزوں کے لیے سینہ کوبی کرنے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ ہر اسپتال ایک ہنگامے کا منظر پیش کر رہا تھا۔

کرونا مریضوں کی آمد اور اسپتالوں میں بیڈز، آکسیجن اور ادویات کی قلت کی وجہ سے ان کو لوٹائے جانے پر مریضوں کے رشتے دار کی جو حالت ہوتی تھی اور وہ جس طرح اسپتالوں کے سامنے زندگی کی بھیک مانگتے تھے وہ سب ناقابلِ دید اور ناقابلِ بیان تھا۔

بعض مقامات پر بیڈ، آکسیجن اور ادویات کی قلت کی وجہ سے مشتعل افراد نے ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ گجرات میں سورت کے ایک اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے، آئی سی یو کے ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئے۔

کالونیوں اور آبادیوں میں یوں تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے سناٹا تھا لیکن یہ سناٹا یا تو ایمبولینس کی آواز توڑتی یا پھر کسی متوفی کے اہلِ خانہ کی آہ و بکا سے ٹوٹتا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ ہر دوسرے تیسرے گھر سے جنازے نکلتے رہے ہیں۔

دہلی کے علاوہ تقریباً تمام بڑے اور اوسط شہروں میں لوگوں کو آکسیجن کے لیے دربدر بھٹکتے ہوئے دیکھا گیا۔ کوئی اپنے کندھے پر آکسیجن سیلنڈر لیے چلا جا رہا ہے تو کوئی اپنی گاڑی میں لے کر جا رہا ہے۔

آکسیجن سیلنڈروں اور ادویات کی ذخیرہ اندوزی بھی شروع ہو گئی تھی۔ اب ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

شمشان گھاٹوں کے کربناک مناظر

کرونا کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب شمشان گھاٹوں میں چتاؤں کے لیے اور قبرستانوں میں قبروں کے لیے جگہیں کم پڑ گئیں۔

پارکنگ ایریاز میں بھی چتائیں جلائی جانے لگیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ لوگ کرونا سے مرنے والے اپنے عزیز و اقارب کی لاشیں لینے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے کئی رضاکار گروہ سامنے آ گئے اور آخری رسومات میں لوگوں کی مدد کرتے رہے۔

تیرتی لاشیں اور انسانیت کی بے قدری

لیکن معاملے کی سنگینی یہیں تک محدود نہیں تھی۔ وہ وقت بھی آیا جب دریاؤں میں لاشیں تیرنے لگیں۔

سماجی ماہرین بتاتے ہیں کہ بھارت میں اس سے قبل انسانی بے قدری کا ایسا عالم کبھی نہیں رہا۔

حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ بھار ت میں کرونا سے ہلاک شدگان کی تعداد تین لاکھ سے اوپر ہے۔ لیکن ماہرین اس دعوے پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد حکومت کی جانب سے بتائی جانے والی تعداد سے 10 گنا زیادہ ہے۔ تاہم حکومت اس دعوے کو مسترد کرتی ہے۔

دہلی اور تقریباً پورے ملک کے مسلمانوں کو اس رمضان کا مقدس مہینہ بھی اپنے گھروں میں گزارنا پڑا۔ گزشتہ برس کی مانند اس برس بھی لوگوں نے اپنے گھروں میں نماز تراویح و نماز عید کی ادائیگی کی۔

'جیسے زندگی لوٹ آئی ہے'

ان تکلیف دہ اور اذیت ناک حالات سے گزرنے کے بعد جب سات جون کو دہلی میں لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم کی گئیں تو لوگوں نے راحت کی سانس لی۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہمیں دوبارہ زندگی نصیب ہوئی ہے۔

دہلی کی لائف لائن سمجھی جانے والی میٹرو ٹرین بھی تقریباً دو ماہ کے بعد نصف نشستوں کے ساتھ شروع ہو گئی۔ میٹرو سے سفر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آج اتنے دنوں کے بعد جب وہ میٹرو میں سوار ہوئے تو یوں لگا کہ وہ ایک کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

بازاروں اور مالز کو بھی کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ البتہ بازاروں میں طاق اور جفت کی بنیاد پر دکانیں کھل رہی ہیں۔ یعنی نصف ایک روز تو نصف دوسرے روز۔ ہفتہ وار بازاروں کو کھولنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا ہے۔

کچھ سرکاری دفاتر کو 100 فی صد حاضری کے ساتھ کھولا گیا ہے تو کچھ کو نصف حاضری کے ساتھ۔ نجی دفاتر کو مکمل طور پر نصف حاضری کے ساتھ کھولا گیا ہے۔ یہ دفاتر صبح نو سے شام پانچ بجے تک کھلیں گے۔

مالز اور بازار صبح 10 بجے سے رات کے آٹھ بجے تک کھلیں گے۔ تاہم کتابیں اور اسٹیشنری فروخت کرنے والی دکانیں روزانہ کھولی جائیں گی۔

شناختی کارڈ ضروری

رہائشی کالونیوں میں واقع ضروری اشیا کی دکانیں یومیہ کھلیں گی۔ مالز کے کارکنوں کو ان کے مالکان شناختی کارڈ جاری کریں گے۔ مالکان بھی اپنا شناختی کارڈ ساتھ رکھیں گے۔ اس کے علاوہ ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے پاس بھی جاری کیے جائیں گے۔

وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے ایک ٹوئٹ میں عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر ترک نہ کریں۔ ماسک لگائیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور بار بار اپنے ہاتھ صابن سے دھوتے رہیں۔

تقریباً دو ماہ بعد پابندیاں ہٹنے کی وجہ سے دہلی میں تجارتی سرگرمیاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ لوگ گھروں سے باہر نکلے اور مختلف علاقوں میں سڑکوں پر ٹریفک جام کے مناظر بھی دیکھے جا رہے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران مسجدوں میں پانچ سے زائد افراد کے نماز کی ادائیگی پر پابندی تھی۔ لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG