بھارت کے معاشی سرگرمیوں کے مرکز ممبئی میں گزشتہ ہفتے کے دوران کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں 70 فی صد کمی آئی ہے۔ ممبئی، 22 ملین افراد کا شہر ہے اور کرونا کے عروج کے دنوں میں یہاں روزانہ 11 ہزار افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو رہے تھے، جو اب کم ہو کر دو ہزار افراد یومیہ ہو گئے ہیں۔
بھارت کو اب تک کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کرونا کی صورتِ حال کے باعث لوگوں کا عدم اطمینان بڑھتا رہا ہے، ایسے میں ممبئی میں کرونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد میں کمی کے اعدادو شمار امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
ممبئی کے رہائشی، 30 سالہ ایمبولینس ڈرائیور اظہار حسین کہتے ہیں کہ کئی ماہ میں پہلی مرتبہ وہ کسی حد تک پر امید ہیں۔ اظہار کئی ہفتوں سے بغیر تھکے کام کر رہے تھے اور ان کے شہر میں کرونا وائرس کی لپیٹ میں آنے والوں کی تعداد اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔ گزشتہ ماہ انہوں نے 70 مریضوں کو ہسپتال پہنچایا، اور ان کا فون مسلسل بجتا رہتا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، مئی کے پہلے دو ہفتوں میں اظہار صرف 10 مریضوں کو ہسپتال لے کر گئے ہیں، اور اب ان کا فون بھی، بقول ان کے، اُس تواتر سے نہیں بج رہا۔
اے پی کے مطابق، کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں کمی کا سہرا، ممبئی کے حکام کی جانب سے لاک ڈاؤن کے سخت نفاذ اور چوکس انتظامیہ کو دیا جا رہا ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی اب وائرس کا شکار مریضوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔
کرونا وائرس کے 24 ملین یعنی دو کروڑ چالیس لاکھ مصدقہ مریضوں اور دو لاکھ ستر ہزار اموات کے بعد، بھارت دنیا میں امریکہ کے بعد دوسرا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ تاہم ماہرین کے نزدیک، ملک میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں کمی شاید زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے۔ گزشتہ ہفتے روزانہ اوسطاً متاثر ہونے والوں کی تعداد تین لاکھ چالیس ہزار تھی۔ کئی ہفتوں بعد، پیر کے روز، ان نئے کیسز کی تعداد میں کمی ہوئی، اور یہ تعداد تین لاکھ سے نیچے رپورٹ ہوئی ہے۔
اے پی کے مطابق، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ چیزیں بہتر ہو رہی ہیں۔ لیکن جہاں تک ممبئی اور دہلی کی مجموعی صورتحال ہے، وہاں نئے کیسز میں معمولی کمی نظر آنے لگی ہے جس کو امید کی ایک کرن بھی کہا جا سکتا ہے۔
قومی سطح پر متاثرین میں کمی، چاہے وہ بہت کم ہی کیوں نہ ہو، بڑی آبادیوں والی معدودے چند ریاستوں میں انفیکشن میں کمی کی عکاس ہیں، یا جہاں ٹیسٹ کی شرح بلند ہے۔ اس لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی سطح کے رجحانات، پورے ملک کی صورتحال کی پوری تصویر پیش نہیں کرتے اور گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔
اعداد و شمار کے ایک ماہر مراد بانا جی کہتے ہیں کہ بھارت میں چھوٹی ریاستیں اور شہر ہیں، جہاں صورتحال بد تر ہو رہی ہے، لیکن وہ قومی سطح کی صورتحال میں واضح طور پر نظر نہیں آئیں گے۔
یونیورسٹی آف مشی گن سے منسلک حیاتیات سے متعلق اعدادوشمار کے ماہر بھرامر مکر جی، بھارت میں وائرس سے ہونے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی آبادی 1.4 ارب نفوس پر مشتمل ہے۔ اس سائز کو دیکھتے ہوئے اور یہ مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ وہاں 3.6 ملین مریض موجود ہیں، ہسپتالوں پر ان کا بوجھ آج بھی حد سے زیادہ ہے۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مریضوں کی تعداد میں اضافے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہاں ٹیسٹ کرنے کی اہلیت، مریضوں کی تعداد سے کم ہے۔ اور ایسے میں جب وائرس، شہروں سے ہوتا ہوا، قصبوں اور پھر دیہی علاقوں میں پہنچ رہا ہے تو کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کی اہلیت کم پڑتی جا رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس وجہ سے یہ خوف پیدا ہو رہا ہے کہ دیہی علاقوں میں اس کی زد میں آنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، ہر چند کہ قومی سطح کا ڈیٹا، کیسوں کی تعداد میں کمی دکھا رہا ہے۔
ماہرین کو ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ شاید بھارت میں وائرس سے ہلاکتوں کی اصل تعداد کبھی سامنے نہ آ سکے اور اس بڑی تعداد میں اموات کا ڈیٹا صحافیوں کو سرکاری اعداد و شمار میں نہیں بلکہ شمشان گھاٹوں سے مل رہا ہے۔