بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکام کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) سمیت ورکنگ باؤنڈری پر ڈرونز اور کواڈ کاپٹرز کے ذریعے منشیات اور اسلحہ گرانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
مقامی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد میں تعینات فورسز کو اس نئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جا رہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اینٹی ڈرونز آلات کی فراہمی سے بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) اور پولیس کو ڈرون یا کواڈ کاپٹر کے ذریعے غیر قانونی سرگرمی کا بروقت پتا چل سکے گا۔
خیال رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کے صوبے پنجاب کو تقسیم کرنے والی سرحد کو پاکستان 'ورکنگ باؤنڈری' جب کہ بھارت بین الاقوامی سرحد سمجھتا ہے۔
بھارتی پنجاب میں بھی ڈرونز کی غیر قانونی سرگرمی کا مسئلہ درپیش
بی ایس ایف حکام کا کہنا ہے کہ بھارتی پنجاب میں پاکستان کی جانب سے اڑائے جانے والے ڈرونز کی غیر قانونی سرگرمی کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں ڈرونز کو عسکریت پسندوں کے لیے اسلحہ اور دیگر مواد پہنچانے کے ساتھ ساتھ منشیات کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ پنجاب میں پیش آنے والے اکثر واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ ڈرونز کے ذریعے سر حد پار سے غیر قانونی نشہ آور ادویات پہنچانا ہی مقصود تھا۔
ایک بی ایس ایف عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا "کچھ عرصے سے پنجاب میں چوں کہ خالصتان نواز عناصر ایک بار پھر سر اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں اس لیے ہمیں زیادہ چوکنا رہنے کی ٖضرورت ہے۔
اس وقت بھارتی سیکیورٹی فورسز انڈین ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آرڈی او) کے تیار کردہ اینٹی ڈرون نظام کا استعمال کررہی ہیں۔
ڈی آر ڈی او کے تیار کردہ آلات انہیں جموں ہوائی اڈے کے قریب واقع بھارتی فضائیہ کے اڈے یا انڈین ائر فورس اسٹیشن پر ڈرونز کے ذریعے 27جون 2021کو کیے گئے ایک حملے کے بعد فراہم کیے گئے تھے۔
اس حملے کے نتیجے میں اڈے پر ہوئے دھماکوں میں دو اہلکار ارونگ سنگھ اور ایس کے سنگھ زخمی ہوئے تھے۔ ایک دھماکے کی وجہ سے ایک عمارت کی چھت کو معمولی نقصان پہنچا تھا جب کہ ڈرون سے گرایا گیا دوسرا بم ایک کھلے میدان میں پھٹ گیا تھا۔
تاہم بھارتی حکومت نے اس حساس اور ہائی سیکیورٹی مقام پر ہونے والے ان دھماکوں کا انتہائی سنجیدہ نوٹس لیا تھا اور واقعےکی تحقیقات کرنے کا کام فوری طور پر قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو سونپا تھا۔
عام لوگوں کی طرف سے ڈرونز کے استعمال پر پابندی
ان واقعات کے پس منظر میں پولیس اور انتظامیہ نے وفاق کے زیرِ انتظام جموں وکشمیر کے پورے علاقے میں عام لوگوں کی طرف سے ڈرونز یا کیمرے لگے ڈرونز کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ فوٹو گرافروں اور دوسرے پیشہ ور افراد کو اس طرح کے آلات کا استعمال کرنے کے لیے پولیس سے پیشگی اجازت لینا پڑتی ہے۔
عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ رواں ہفتے کے دوران پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے اڑائے گئے ڈرونز کے ذریعے بھارت کے زیرِ انتظام جموں کے علاقے میں ہتھیار ، منشیات اور بھاری رقم گرانے کے دو واقعات پیش آئے۔
انہوں نے کہا کہ صورتِ حال کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کی جموں و کشمیر سمیت سرحدی علاقوں میں 2021 میں 104 مرتبہ ڈرون سرگرمی مشاہدے میں آگئی تھی جب کہ 2022 میں اس طرح کے واقعات بڑھ کر 311 تک پہنچ گئے تھے۔
حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق جن دوسری ریاستوں میں سرحد پار اڑان بھرنے والے ڈرونز کی سرگرمیاں دیکھی گئیں اور کئی ایسے ڈرونز کو مار گرایا گیا ان میں بھارتی پنجاب، راجستھان اور گجرات شامل ہیں۔
بھارت نے معاملہ سلامتی کونسل میں بھی اٹھایا
اقوامِ متحدہ میں بھارت کی مستقل نمائندہ روچیرا کامبوج نے اس ماہ کے آغاز پرسلامتی کونسل میں 'عالمی امن اور سیکیورٹی کو درپیش خطرات' کے موضوع پر ہونے والی کھلی بحث کے دوران بھی یہ معاملہ اُٹھایا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کہا تھا کہ اُن کے ملک کو سرحد پار سے ڈرونز کے ذریعے غیر قانونی ہتھیار گرائے جانے کے سنگین چیلنج کا سامنا ہے ۔ انہوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ریاست کی فعال حمایت کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے بتایا کہ ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر نومبر 2003 میں طے پانے والے فائر بندی معاہدے کی فروری 2021 میں تجدید کی گئی تھی جس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
ماضی کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کی جانب سے در اندازی کی نسبتاً کم کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ان کے بقول دہشت گرد تنظیمیں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد ہتھیاروں آتشیں اسلحے اور ہتھیاروں کی ترسیل کے لیے ڈرونز کا استعمال کر رہی ہیں۔
منشیات سے حاصل رقوم کہاں استعمال ہوتی ہیں؟
انہوں نے الزام لگایا کہ منشیات کے اس کاروبار سے حاصل کی جانے والی رقوم کا جو حصہ سرحد پار بھیجا جاتا ہے اُسے کئی مواقع پر اُن عسکریت پسندوں میں تقسیم کیا گیا جو ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کے ذریعے دراندازی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ گزشتہ دو برس کے دوراں جموں و کشمیر کی حدودمیں داخل ہونے والے کئی کواڈ کاپٹرز کو مار گرایا گیا اور اس ضمن میں گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔
بھارتی وزیرِ داخلہ امت شاہ کی زیرِ صدارت نئی دہلی میں ہونے والے ایک اجلاس میں بھی اس صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔
پاکستان بھارت کے اس الزام کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کی مدد کررہا ہے۔وہ بھارتی حکام کے اس دعو ے کو بھی رد کرتا ہے کہ جموں و کشمیر یا بھارتی پنجاب میں ڈرونز یا کواڈ کاپڑوں کے مبینہ داخلے کے پیچھے اس کے سرکاری اداروں کا ہاتھ ہے۔