بھارت کی نئی حکومت ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ آنجنہ پسریچہ نے نئی دہلی سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنوبی ایشیا دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں معاشی انحصار کا عمل کم ترین سطح پر ہے۔
جمعے کے روز بنگلہ دیش کا دورہ مکمل کرتے ہوئے، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے متعدد رعایتوں کا اعلان کیا، جن میں نئی دہلی کی طرف سے ویزا کی شرائط میں نرمی برتنا، اپنے پڑوسیوں کو زیادہ بجلی فراہم کرنا اور تجارت کے توازن کو اپنے حق میں بہتر کرنے کی غرض سے سرمایہ کاری میں اضافہ لانا شامل ہے۔
سوراج نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اپنے چھوٹے ہمسایوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھے بغیر بھارت اپنے ترقیاتی ایجنڈے کو جاری نہیں رکھ سکتا۔
یہی وہ وزنی پیغام ہے جو ایک ماہ قبل اقتدار میں آنے والی حکومتِ بھارت دے رہی ہے، جس نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوتان جیسے ممالک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ لایا جائے گا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان، سید اکبرالدین نے کہا ہے کہ ایجنڈا پر معاشی اہداف سرفہرست ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، بھارت کے لیے اولیت کی حامل ترجیح یہ ہے کہ ایک جامع قومی ترقیاتی پروگرام کو آگے بڑھانے اور تیز کرنے کے اقدام کیے جائیں، اور ہماری یہ کوشش رہے گی کہ ایسے اقدامات لیں جن کے ذریعے علاقے میں تعینات ہمارے سفارت کار ہمارے اس قومی لائحہ عمل میں ہماری مدد کر سکیں۔
جب سے وزیر اعظم نریندرا مودی نے عہدہ سنبھالنے کی تقریب میں ہمسایہ ممالک کے سربراہان کو دعوت دے کر بلانے کی غیرمعمولی ریت ڈالی ہے، اس ماہ بھارتی وزارت خارجہ کے دفاتر میں جنوبی ایشیا کا ہی بار بار نام لیا جارہا ہے۔ اُنھوں نے جون کے وسط میں بھوتان کا دورہ کرکے اپنی اس سوچ کو تقویت بخشی۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں سفارت کاری کے عمل میں تیزی لانے کا معاملہ ایک حد تک اس لیے آگے بڑھایا گیا ہے تاکہ جنوبی ایشیا میں چین کے اثر کو حد میں رکھا جاسکے۔
تاہم، یہ خطہ جہاں سیاسی رقابتیں اور ایک دوسرے پر شبہات کی بنا پر معاشی قربت کو دھچکہ پہنچتا رہا ہے، وہاں تجارت کو فروغ دینے کو اہمیت دینا تقویت کا باعث اقدام ہے۔
جنوبی ایشیا دو ارب افراد پر مشتمل گنجان آباد خطہ ہے۔ تاہم، علاقائی تجارت کی عدم موجودگی کے باعث، اس اعتبار سے یہ دنیا کے دیگر حصوں سے بہت پیچھے ہے۔ معاشی ماہرین جنوبی ایشیا کے بلاک کے مابین محض پانچ فی صد تجارت کی مثال دیتے ہیں، جب کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے درمیان تقریبا ً 25 فی صد تجارت ہوتی ہے۔
خطے کے دو بڑے ممالک بھارت اور پاکستان میں سرحد پار تجارت پر پابندیاں لاگو ہیں، جس کا سبب دونوں کے مابین ماضی کے مخاصمانہ تعلقات ہیں۔ سنہ 2005 کا سمجھوتا جس کا مقصد آزادانہ تجارت کا زون قائم کرنا تھا، وہ قابل قدر مثبت نتائج برآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔ راہ میں بلند سطح کے محصولات حائل ہیں۔
معیشت داں، راجیو کمار نئی دہلی میں قائم ’سینٹر فور پالیسی رسرچ‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بداعتمادی کو دور کرنے سے معاشی رابطوں کو فروغ ملے گا۔
وہ پُراعتماد ہیں۔ کمار کا کہنا ہے کہ نئی حکومت نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ اشیا، افراد اور خدمات کے آزادنہ تحرک کو بڑھاوا دیا جائے گا۔
بھارت نے عہد کر رکھا ہے کہ خطے میں سرحدوں کے قریب تجارتی چوکیوں پر نئی سڑکوں، ریل لنکس اور زیریں ڈھانچے کے جال کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے گا۔
مثلاً، سوارج کا کہنا ہے کہ بھارت اس بات پر تیار ہے کہ بنگلہ دیش سے ریل گاڑی کے رابطے بڑھائے جائیں، اور یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان بس سروس کے قیام کے امکان پر غور کیا جائے گا۔ اکتوبر میں بھارت کو میانمار سے ملانے والی سڑک کا افتتاح ہو رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کا فروغ اس خطے کو بے تحاشا فوائد میسر کرے گا، جو انتہائی درجے کی غربت کے خاتمے کی کوششیں میں معاون ہوگا۔