سات بین الاقوامی کاروباری اداروں نے ماضی میں طے پانے والے تجارتی معاہدوں پر ٹیکس وصولی کے حکومتی منصوبے کے پیشِ نظر بھارت میں اپنی سرمایہ کاری پر نظرِ ثانی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بھارتی حکومت کے زیرِ غور منصوبے کا بنیادی ہدف برطانوی موبائل کمپنی 'ووڈافون' کو قرار دیا جارہا ہے جس نے طویل قانونی چارہ جوئی کے بعد حال ہی میں حکومت کے اس منصوبے کے خلاف عدالتی فیصلہ حاصل کیا ہے۔
یاد رہے کہ ہانگ کانگ کی معروف ٹیلی کام کمپنی 'ہچی سن وہامپوا' کی بھارتی شاخ کے حصص خریدنے پر بھارتی حکومت نے 'ووڈافون' کو ٹیکس کی مد میں دو ارب 20 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کا نوٹس بھیجا تھا۔
ووڈا فون نے اس مطالبے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا جس نے طویل سماعت کے بعد جنوری میں برطانوی کمپنی کے حق میں فیصلہ سنایا۔
لیکن اب بھارتی حکومت کی جانب سے بیرونِ ملک طے پانے والے ایسے کاروباری معاہدات پر ٹیکس وصولی کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے جس کے تحت فروخت کیے جانے والے اثاثہ جات بھارت میں موجود ہوں۔
یہی نہیں بلکہ مجوزہ قانون کا اطلاق 1962ء سے ہوگا جس کے بعد بھارتی حکومت گزشتہ نصف صدی کے دوران میں طے پانے والے ایسے معاہدوں پر بھی ٹیکس وصول کرسکے گی۔
بھارتی حکومت نے اس ضمن میں قانون سازی کا اعلان گزشتہ ماہ پیش کیے جانے والے بجٹ میں کیا ہے۔
لیکن بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کو بھیجے گئے ایک خط میں بین الاقوامی کاروباری اداروں نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے روگردانی کرتے ہوئے بھارتی حکومت جو غیر مثالی اقدام کرنے جارہی ہے اس کے نتیجے میں کاروباری اداروں کا بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد متزلزل ہوگا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ قانون نے بھارت میں قانون کی حکمرانی اور کاروباری اداروں کے ساتھ یکساں سلوک پہ سوال کھڑے کردیے ہیں۔
بین الاقوامی کاروباری اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس تجویز کو قانون کی شکل دی گئی تو بھارت "بین الاقوامی سرمایہ کاری کے اہم مرکز" کی حیثیت کھودے گا۔