امریکی محکمہ خارجہ کی منگل کی پریس بریفنگ میں"سکھ فا رجسٹس " کے بارے میں سوال ایک صحافی نے نائب ترجمان ویدانت پٹیل سے کینیڈا اور بھارت کے درمیان جاری سفارتی تنازعے کے حوالے سے پوچھا جس میں منگل کو اس وقت شدت پیدا ہوگئی جب نئی دہلی نے کینیڈا کو اپنے 41 سفارت کار واپس بلانے کے لیے کہا۔
صحافی نےامریکہ میں جہاں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں ، امریکہ میں قائم تنظیم "سکھ فار جسٹس" کی جانب سے کسی غیر سرکاری ریفرنڈم کے انعقاد کےحوالے سے سوال کیا تھا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ آیا اس (ریفرنڈم) کےبارے میں کوئی پالیسی ہے؟ یا یہ محض آزادی تقریر کا معاملہ ہے۔
ریفرنڈم کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "ہم اس غیر سرکاری ریفرنڈم پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ عمومی طور پر امریکہ میں ہر فرد کو تقریرکی آزادی کا حق ہے، پر امن طور پر اجتماع کا حق ہے"۔
بقول ویدانت پٹیل کے وہ سب کچھ جس کی پہلی ترمیم سے ملنے والے تحفظات اور وفاقی اور مقامی ضوابط کی پابندی کے حوالے سے اجازت ہے۔
کینیڈا اور بھارت کا نیا سفارتی تنازعہ
اس معاملے سے با خبر ایک اہل کار نے منگل کے روز کہا تھا کہ بھارت نے کینیڈا سے کہا ہے کہ وہ بھارت میں موجود اپنے 62 سفارت کاروں میں سے 41 کو واپس بلا لے۔تاہم کینیڈین وزارتِ خارجہ نے کہا کہ کینیڈا بھارت سے اپنے سفارت کار نہیں نکالے گا ۔
کینیڈین وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہاکہ ہماری دونوں حکومتوں کے درمیان تناؤ ہے اوراب پہلے سے زیادہ ضروری ہے کہ سفارت کار وہاں موجود رہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ آرائی میں کینیڈا کے ان الزامات سے اضافہ ہوا ہے کہ بھارت ممکنہ طور پر وینکوور کے مضافات میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔
اہل کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کیونکہ انہیں کینیڈا کی حکومت کے ردعمل سے قبل اس معاملے کے بارے میں بات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس اہل کار نے فنانشل ٹائمز کی ایک سابق رپورٹ کی تصدیق کی ہے لیکن بھارت کی وزارت خارجہ نے اس بارے میں بیان دینے سے انکار کیا ہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ ماہ پارلیمان میں یہ کہا تھا کہ ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت میں بھارت کے ملوث ہونے کے ’’باوثوق الزامات‘‘ ہیں ۔
نجر 45 سالہ سکھ لیڈر تھے جنہیں کینیڈا کے شہر وینکوور کے ایک مضافاتی علاقے سرے میں نقاب پوش مسلح افراد نے ہلاک کر دیا تھا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ بھارتی نژاد کینیڈین شہری نجر برسوں سے دہشت گردی میں ملوث تھے۔ تاہم نجر اس الزام کو مسترد کرتے تھے۔
کینیڈا میں بھارت سے تعلق رکھنے والے تقریبا 20 لاکھ سکھ مقیم ہیں اور وہاں ایک کینیڈین شہری کا قتل ایسا واقعہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
بھارت برسوں سے کینیڈا کو مورد الزام ٹھہراتا آیا ہے کہ وہ سکھ علیحدگی پسندوں کو بہت آزادی دیتا ہے اور ایسے ہی افراد میں نجربھی شامل تھے۔
بھارت نے کینیڈین افراد کے ویزے بھی منسوخ کر دیے ہیں ۔ کینیڈا نے اس حد تک سخت اقدام نہیں اٹھائے ۔ بھارت نے کینیڈا کی جانب سے ایک سینئر سفارت کار کو ملک سے نکالنے کے بعد ایک سینئر کینڈین سفارت کار کو بھی ملک سے نکال دیا تھا۔
کینیڈا کے ایک اہل کار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو پہلے یہ بتایا تھا کہ نجر کی ہلاکت میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزامات جزوی طور پران بھارتی سفارت کاروں کی نگرانی سے تعلق رکھتے ہیں جو کینیڈا میں مقیم تھے۔ ان میں ایک بڑے حلیف کی جانب سے فراہم کی جانے والی انٹیلی جنس بھی شامل ہے۔
اس کینیڈین اہل کار نے بتایا کہ اس کمیونیکیشن میں بھارتی عہدے دار اور کینیڈا میں مقیم بھارتی سفارت کار شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’فائیو آئیز‘‘ نامی اتحاد میں شامل ایک رکن کی جانب سے بھی کچھ انٹیلی جینس فراہم کی گئی۔ اس اتحاد میں کینیڈا کے علاوہ امریکہ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں ۔ اس کینیڈین اہل کار نے بھی نام نہ بتانے کی شرط پر یہ بات بتائی کیونکہ وہ اس معاملے پر تبادلہ خیال کے مجاز نہیں تھے۔
بھارت کی جانب سے کینیڈین سفارت کاروں کی اس تازہ ترین ملک بدری کے حوالےسے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی وزیر اعظم مودی سے نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی ٹونٹی اجلاس کے دوران ہونے والی ملاقاتیں سرد مہری سے ہوئیں ۔پھر کینیڈا نے کچھ روز کے بعد بھارت کے لیے ایک تجارتی وفد کو منسوخ کر دیا جسے اس موسم خزاں میں بھارت کا دورہ کرنا تھا۔
نجر پیشے کے اعتبار سے پلمبر تھے اورسکھوں کی علیحدگی پسند خالصتان تحریک کے لیڈر تھے۔ یہ تحریک ایک زمانے میں کافی زور پکڑ چکی تھی۔ اس تحریک کا مقصد سکھوں کے لیے ایک آزاد وطن کا قیام تھا جسے خالصتان کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ 1970 کی دہائی کے دوران جاری خونریز تحریک تھی جس نے شمالی بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔حکومت کی ایک سخت کارروائی میں اس تحریک کو کچل دیا گیا تھا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں ممتاز سکھ لیڈر بھی شامل تھے۔
خالصتان کی تحریک کافی حد تک اپنی سیاسی قوت کھو چکی ہے تاہم، بھارتی ریاست پنجاب اور دنیا بھر میں مقیم سکھ برادری میں ابھی بھی اس کی حمایت موجود ہے۔ اس تحریک کا زور ختم ہونے کے باوجود بھارت کی حکومت بار بار خبردار کرتی ہے کہ سکھ علیحدگی پسند دوباہ متحد ہو رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔)
فورم