مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے اپنے قیام کے 12 سال مکمل کرلئے ہیں اور اس مدت کے دوران اس نے بھارت کے تمام اہم شہروں میں اپنے علاقائی مراکز کا قیام عمل میں لایا۔فاصلاتی تعلیم کے زریع تمام عصری کورسز میں تعلیم کا اہتمام کیا گیا ہے اس کے علاوہ یونیورسٹی نے فنی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ مبذول کی ہے۔
ملک میں اردو یونیورسٹی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 90ء کے دہائی میں آئی کے گجرال کی صدارت میں ایک کمیٹی کمیٹی نے ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ اور اہل اردو سے ملاقاتوں کے بعد حیدرآباد میں قیام کی سفارش کی تھی۔جنوری 1998ء میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کے زریعے ملک کی پہلی قومی اردو یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور اس کو بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے موسوم کیا گیا۔
یونیورسٹی کے قیام کے اغراض و مقاصد میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج،اردو زبان میں ووکیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم،فاصلاتی تعلیم کا انتظام اور خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ شامل ہیں۔یونیورسٹی کی جانب سے پالی ٹکنکس اور ایک ماڈل اسکول بھی قائم کیا گیا۔اردو یونیورسٹی میں مختلف قومی و بین الاقوامی امور پر ملک کی نامور شخصیتوں کے لکچرز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔حیدرآباد میں امریکی کونسلیٹ نے بھی یونیورسٹی میں لکچر دیا ہے۔
قیام کے بعد یونیورسٹی کے تین وائس چانسلرز مقرر ہوئے۔تیسرے وائس چانسلر کی حیثیت سے پروفیسر محمد میاں نے ماہ مئی میں زمےداری سنبھالی۔پہلے وائس چانسلر پروفیسر شمیم جے راج پوری تھے جب کہ دوسرے وائس چانسلر پروفیسر اے ایم پٹھان تھے۔پروفیسر محمد میاں نے کہا کہ ملک کی آزادی کی نصف صدی بعداردو زریعہ تعلیم کے فروغ اور اہل اردو کی ترقی کے خاطر ایک قومی جامعہ کا قیام کسی کرشمہ سے کم نہیں۔اس نوخیز جامعہ نے جس برق رفتاری کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی ہے وہ کم حیرت انگیز نہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمیانے اور مسابقت کے اس دور میں اردو کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ذمے داری اردو یونیورسٹی پر عائد ہوتی ہے۔شعر و ادب کی روایات سے پرے سائنس،سوشل سائنس اور تحقیق کے میدان سے اردو کے ٹوٹے ہوئے رشتے کو استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
اسکول کی سطح سے لے کر ڈاکٹریٹ تک کی سہولتیں یونیورسٹی میں فراہم کی گئی ہیں۔پروفیسر محمد میاں جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں فیکلٹی آف ایجوکیشن کے ڈین اور سنٹر فار ڈسٹنس اینڈ اوپن لرننگ کے ڈائرکٹر رہے۔انہوں نے علی گڑھ سے تعلیم کا آغاز کیا ا ور کئی اداروں سے وابستہ رہے۔