کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قائم کیریری وویمن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، مشرقی افریقہ میں خواتین کی واحد یونیورسٹی ہے۔ وہاں کے اساتذہ اور طالبات کا کہناہے کہ یونیورسٹی کا مخصوص ماحول ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے اور اپنی بات مؤثر طورپر کہنے کا حوصلہ پیدا کرنے میں معاون ثابت ہورہاہے۔
ایک ایسے ملک میں ، جہاں 2007ءمیں ریاضی اور سائنس کے مضامین پڑھنے والے طالب علموں میں طالبات کی تعداد محض 12 فی صد تھی، کیریری وویمن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ایک ایسی درس گاہ کے طورپر دیکھا جاتا ہے جو خواتین کو مردوں کے معاشرے میں آگے بڑھنے میں مدد دے رہی ہے۔
جیری نائیکونیو اس یونیورسٹی کی ڈپٹی وائس چانسلر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم یہاں پرخواتین کے لیے پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے سیمینار منعقد کرتے ہیں۔ تاکہ طالبات کو اندازہ ہو کہ دفتری ماحول کیا ہوتا ہے ، پیشہ ور نہ زندگی میں آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے اور اس میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ لہذا جب طالبات ڈگری لے کر نکلتی ہیں تووہ مارکیٹ کی صورت حال کے لیے پہلے سے ذہنی طورپر تیار ہوتی ہیں۔
ماہر ین ِ تعلیم کہتے ہیں کہ مخلوط طرز ِ تعلیم میں لڑکیاں لڑکوں سے جھجکتی ہیں اور کلاس میں خاموش رہتی ہیں۔ لیکن مارکیٹنگ اور بزنس کی لیکچرر جودت مریوکی کا کہنا ہے اس یونیورسٹی میں لڑکیوں کو قائدانہ صلاحیتوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
ایک طالبہ ننسی نکیسا کا کہناہے کہ اگر ہم لڑکوں کے ساتھ سکول میں ہوں تو وہ ہر شعبے میں ہم سے آگے ہوتے ہیں جیسا کہ سائنسی مضامین وغیرہ ۔ جس سے ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ مگر یہاں معاملہ مختلف ہے یہاں لڑکیاں بہت اچھی کارکردگی دکھا رہی ہیں۔
کینیا میں خواتین بالعموم مردوں سے جھجھک محسوس ہے اور اس کی وجہ معاشرے کے رسم ورواج ہیں۔ کینیا کے روایتی معاشرے میں لڑکیوں کو گھریلو امور اور اچھی بیویاں بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ جبکہ وہاں اکثرغریب خاندانوں میں لڑکیوں کی بجائے صرف لڑکوں کوہی سکول بھیجنے کا رواج ہے۔ لیکن ماہرین ِ تعلیم کا کہنا ہے2030ء تک کے حکومتی معاشی منصوبے اور اقوام ِ متحدہ کے ادارہ برائےصد سالہ ترقیاتی امورکی مدد سے کینیا کی خواتین میں خواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے۔
گذشتہ سال، کینیا کے ثانوی سکولوں میں لڑکیوں کے داخلے کی شرح کل شرح کا45 فی صد تھی۔
مگر یونیورسٹی کی ڈپٹی وائس چانسلر جیری نائیکونیو کے مطابق ابھی اس سلسلے میں ایک طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔ اور ان کی یونیورسٹی اس سفر میں خواتین کی مدد کررہی ہے۔