|
امریکہ نے دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال کی گرفتاری کے سلسلے میں اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اس خبر پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور یہ کہ وہ ایک منصفانہ، شفاف اور بر وقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
جب بدھ کو امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے بھارت کی بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے بینک اکاونٹ منجمد کیے جانے کے الزام سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اروند کیجری وال کی گرفتاری سمیت ان اقدامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کانگریس کے اس الزام سے بھی آگاہ ہیں کہ ٹیکس انتظامیہ نے اس کے بعض بینک اکاونٹس کو اس طرح منجمد کر دیا ہے کہ آنے والے انتخابات میں اس کے لیے مؤثر انتخابی مہم چلانا ایک چیلنج بن گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ تمام معاملات میں شفاف، منصفانہ اور بر وقت قانونی اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ کسی کو اسے مسترد کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے کیجری وال کی گرفتاری پر امریکہ کی جانب سے منگل کو دیے گئے بیان پر سخت احتجاج کیا تھا اور امریکی سفارت خانے میں ڈپٹی چیف آف مشن گلوریا بربینا کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں بھارت کے قانونی عمل کو غیر جانب دار بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر شک و شبہے کا اظہار کرنا مناسب نہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ سفارت کاری میں ریاستوں سے دوسروں کے اقتدارِ اعلیٰ اور اندرونی امور میں عدم مداخلت کی توقع کی جاتی ہے اور یہ ذمہ داری شریک جمہوریتوں کے معاملے میں اور بڑھ جاتی ہے۔
یاد رہے کہ مالی بدعنوانی کے انسداد کے ادارے ’انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ (ای ڈی) نے دہلی شراب پالیسی میں مبینہ مالی بدعنوانی کے الزام میں گزشتہ ہفتے عام آدمی پارٹی کے رہنما اور دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال کو گرفتار کیا تھا۔
عام آدمی پارٹی اور اروند کیجری وال نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
کیجری وال نے جمعرات کو عدالت میں پیشی کے موقع پر گفتگو میں کہا کہ یہ کارروائی ان کے خلاف سیاسی سازش ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے بیان کو نئی دہلی میں دو طرح سے دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے حالیہ بیانات کو جمہوریت کے تعلق سے امریکہ کے نظریات اور پالیسیوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ جب کہ بعض مبصرین اسے بھارت میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
'امریکی بیان کا خیر مقدم ہونا چاہیے'
تاہم مبصرین کا خیال ہے کیجری وال کی گرفتاری، کانگریس کے بینک اکاونٹ کو منجمد کیے جانے کے الزام اور شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے نفاذ سے متعلق امریکی بیانات سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کوئی کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔
سینئر تجزیہ کار نیلانجن مکھوپادھیائے کے مطابق مغرب کے جمہوری ملکوں کو بھارت میں جمہوری اقدار کے زوال اور آئینی اداروں کی کمزوری کے خلاف بولنا چاہیے۔ لہٰذا امریکی وزارت خارجہ نے جو بیان دیا ہے اس کا خیر مقدم ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ بھارت میں جمہوری قدروں کے زوال پر اظہار تشویش کرتا رہے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حالاں کہ بھارت نے اپنے یہاں کی قانونی کارروائیوں کے سلسلے میں امریکی بیان پر سخت احتجاج درج کیا ہے۔ لیکن یہ دیکھنا پڑے گا کہ بھار ت امریکہ کے ساتھ اپنے رشتوں کو کس انداز میں آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
دونوں ملک بار بار تعلقات کے مزید مستحکم ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے بھارت کے بعض امور پر اظہارِ تشویش بھی کیا جاتا رہا ہے۔ کیجری وال کی گرفتاری سے قبل امریکہ نے شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے نفاذ پر اظہارِ تشویش کیا تھا۔
مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے بھی سی اے اے معاملے پر تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر شہریت دیتا ہے۔ اس سے مسلمانوں کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔
بعض مبصرین امریکی بیانات کو بھارت میں ہونے والے انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابھی تو کچھ واضح نہیں ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ بھارتی انتخابات کے ممکنہ نتائج کے سلسلے میں شاید کچھ سوچ رہا ہے۔
نیلانجن مکھوپادھیائے امریکی بیان کو انتخابات سے جوڑ کر نہیں دیکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ بھارتی انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں کیا سوچتا ہے یہاں بیٹھ کر اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔
تاہم انھوں نے کیجری وال کی گرفتاری اور سی اے اے پر امریکی بیانات کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہاں کی حکومت سی اے اے کے توسط سے عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے اور اگر اس پر امریکہ تشویش ظاہر کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔
'حزبِ اختلاف کے خلاف کارروائیاں امریکہ کے علم میں ہیں'
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر محمد ذاکر کا کہنا ہے کہ بھارت میں انتخابات سے متعلق خبریں امریکہ میں بھی جاتی ہیں اور یہاں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف ای ڈی کی کارروائیوں سے وہ بھی واقف ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے رشتے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن امریکہ وقتاً فوقتاً اس قسم کے بیانات دے کر بھارت کو اس کی جمہوری قدروں کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
ان کے بقول ایسا لگتا ہے کہ امریکہ جمہوری قائد بنے رہنے کا اپنا کردار چھوڑنا نہیں چاہتا۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھارت کی جمہوریت کے تعلق سے بیانات دیتا رہتا ہے۔ تاکہ بھارت میں بھی جمہوری قدریں مضبوط رہیں۔ اس کے علاوہ وہ بھارتی انتخابات میں اپنی موجودگی بھی دکھانا چاہتا ہے۔
ان کے بقول امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کو اپنی شرطوں پر آگے بڑھانا چاہتا ہے جب کہ بھارت بھی اپنے قومی مفادات کے پیش نظر اقدامات کر رہا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اس قسم کے بیانات کو باہمی رشتوں میں کشیدگی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔
قابل ذکرہے کہ جرمنی نے بھی کیجری وال کی گرفتاری پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ اسے امید ہے کہ اس معاملے میں بنیادی جمہوری اصولوں کو بروئے کار لایاجائے گا۔ کسی بھی ملزم کی مانند کیجری وال بھی شفاف اور غیر جانبدار قانونی کارروائی کے مستحق ہیں اور انھیں بھی بغیر کسی رکاوٹ کے تمام قانونی آپشنز کو اختیار کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔
اس پر بھارت نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا اور اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے جرمن سفارت خانے میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو طلب کرکے احتجاج درج کرایا تھا۔
اس کے بعد جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ اسے بھارت کے عدالتی نظام پر بھروسہ ہے اور بھارتی آئین نے بنیادی انسانی اقدار اور آزادی کی گارنٹی دی ہے۔ انھوں نے ایشیا میں بھارت کو جرمنی کا ایک ہم شراکت دار قرار دیا۔
دریں اثنا دہلی ہائی کورٹ نے کیجری وال کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے برطرف کرنے کی درخواست خارج کر دی اور کہا کہ اس میں کوئی میرٹ نہیں ہے۔ اس کے مطابق یہ معاملہ اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس پر حکومت کو قانون کے مطابق غور کرنا چاہے۔
ادھر دہلی کی ایک دوسری عدالت نے کیجری وال کی عدالتی تحویل میں یکم اپریل تک توسیع کر دی ہے۔ ای ڈی نے سات روز کی تحویل مانگی تھی۔
فورم