|
جنگ زدہ افغانستان میں اپنے اقتدار کے ڈھائی برس کے دوران افغان طالبان نے اپنی قدامت پسند حکومت کی جڑیں تو مضبوط کر لی ہیں لیکن وہ اپنی جنگی قوت کو روایتی فوج میں تبدیلی نہیں کر سکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی کے مسلح گروپ کے طور پر طالبان کو داعش خراسان کے بڑھتے خطرے سے مؤثر انداز میں نمٹنے اور ہمسایہ ملک پاکستان سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا کرنے کے لیے خود کو روائیتی فوج کے خطوط پر منظم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فور اسٹریٹجک اسٹڈیز کی جانب سے دنیا بھر میں افواج سے متعلق جاری کردہ ایک سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے پاس ڈیڑھ لاکھ جنگجو ہیں۔
گزشتہ برس طالبان کے فوجی سربراہ قاری فصیح الدین فطرت نے 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ حکومت افرادی قوت میں 50 ہزار افراد کا اضافہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے تاہم انہوں نے اس پر عمل درآمد کے لیے کوئی وقت نہیں بتایا تھا۔
افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے تاحال اپنے دفاعی بجٹ کی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔ اپنی دفاعی قوت کو باقاعدہ فوج میں ڈھالنے کے لیے طالبان نے اسپیشل فورسز اور آٹھ انفینٹری کورز کے تحت اپنی افرادی قوت کو تین بٹالین میں تقسیم کیا ہے۔
اس فوج کے پاس مختلف بکتر بند گاڑیاں، توپ خانہ، تین لائٹ ایئر کرافٹ اور 14 ہیلی کاپٹرز ہیں جن میں امریکی ساختہ بلیک ہاکس بھی شامل ہیں جو 2021 میں بین الاقوامی افواج کے انخلا اور افغان سیکیورٹی فورس (اے این ڈی ایس ایف) کی پسپائی اور منتشر ہونے کے بعد طالبان نے اپنے قبضے میں لیے تھے۔
طالبان نے این ڈی ایس ایف کے زیرِ استعمال چند روسی جنگی ہیلی کاپٹر بھی حاصل کر لیے تھے۔
صلاحیت
امریکہ افغانستان سے انخلا کے وقت لگ بھگ سات ارب ڈالر کے فوجی آلات چھوڑ گیا تھا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ طالبان ان ہتھیاروں اور آلات میں شامل بعض انتہائی جدید مشینری کو استعمال کرنے کی محدود صلاحیت رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اسفندر یار میر کا کہنا ہے کہ ان آلات کی مرمت کا کوئی انتظام نہیں اور نہ ہی اے این ڈی ایس ایف کی طرح غیر ملکی رسد حاصل ہے۔ لہذا اس بات کا انتہائی کم امکان ہے کہ وہ ان میں شامل بہت سے آلات کا استعمال بھی کرسکتے ہوں۔
کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کے مڈل ایسٹ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈم وینسٹین کا کہنا ہے کہ اے این ڈی ایس ایف کی طرح طالبان کو بھی اپنے جنگجوؤں کو تربیت دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
وینسٹین سابق امریکی مرین اہل کار ہیں اور 2012 میں افغانستان میں خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق طالبان کو ایک ایسی آبادی سے معاملہ کرنا ہے جنھیں وہ بنیادی تعلیم بھی حاصل نہیں جو فوجی تربیت کے لیے درکار ہوتی ہے۔
جنگجو مزاج
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں جاری 20 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے بعد بھی افغان طالبا ن تاحال جنگجو گروپ کا مزاج ہی رکھتے ہیں۔
وینسٹین کا کہنا ہے کہ جنگجو گروپس میں حکمتِ عملی کی سطح پر انفرادی یونٹس نیم خود مختاری کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ طالبان اب بھی اپنے جنگ جوؤں پر مناسب کمانڈ اور کنٹرول رکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سینئر مشیر گرائیم اسمتھ کا کہنا ہے کہ طالبان کی سب سے بڑی قوت ان کی مقبولیت ہے۔
اقوامِ متحدہ کے لیے افغانستان میں 2015 سے 2018 تک بطور سیاسی مشیر وابستہ رہنے والے اسمتھ کا کہنا ہے کہ طالبان فورسز کا تجزیہ باقاعدہ فوج کی طرح نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ان کی تعداد مقامی ضروریات کے مطابق کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جس دور میں افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کی افواج موجود تھیں، اس دور کے بارے میں نیٹو کی غیر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر طالبان جنگجو اپنے گھروں سے ایک کلومیٹر فاصلے کے اندر ہی لڑائی میں شریک ہوتے تھے۔
اسمتھ کے مطابق اس سے مراد یہ تھی کہ مقامی افراد جاکر نیٹو پر حملے کرتے تھے اور واپس آ کر گھر کا پکا لنچ کرنے کے بعد پھر لڑنے چلے جاتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں اور پناہ گاہوں کی بہ آسانی دستیابی ہی طالبان کا سب سے بڑا ایڈوانٹج ہے۔
سیکیورٹی خطرات
افغان طالبان اپنے خلاف ہونے والی مسلح مزاحمت کو مؤثر انداز میں کچل چکے ہیں لیکن داعش خراسان اب بھی داخلی سیکیورٹی کے اعتبار سے ان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
اسفندیار میر کے مطابق داعش خراسان کی شورش ہلاکت خیز اور تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور یہ طالبان کی نظریاتی مقابل بھی ہے۔
افغان طالبان داعش خراسان کے کئی سینئر کمانڈرز کو ہلاک کرچکے ہیں، اس کے سیلز کو ختم کرچکی ہے اور انہیں افغانستان میں کسی علاقے پر قابض ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
وینسٹین کے مطابق یہ طالبان سیکیورٹی فورسز کی اہلیت کا ثبوت ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں داعش خراسان کے رہنماؤں اور ان کے سیلز کے بارے میں اچھی انٹیلی جینس حاصل ہے اور وہ مؤثر انداز میں اس کے جنگجوؤں کو پسپا کررہے ہیں۔
طالبان کو افغانستان کے باہر پاکستان سے خطرات کا سامنا ہے جو اس کا واحد ایسا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ کابل کے سرحدی تنازعات ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کی فوج دو مرتبہ افغانستان کے اندر مبینہ دہشت گردی کے ٹھکانوں پر حملے کرچکی ہے۔ ان میں سے ایک کارروائی اپریل 2022 اور دوسری رواں برس 18 مارچ کو کی گئی تھی۔
پاکستان الزام عائد کرتا ہے کہ طالبان نے پاکستان مخالف مسلح افراد کو پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں تاہم طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
کابل نے رواں ماہ ہونے والے حملے کے جواب میں سرحد پر متعدد پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں خبردار کیا تھا کہ پاکستان نے سرحد پار کارروائیاں کیں تو اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان سے مقابلہ
وائس آف امریکہ سے بات کرنے والے ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ طالبان کے پاس دنیا کی بڑی جوہری افواج میں شامل پاکستان سے مقابلے کے لیے مطلوبہ گولہ بارود نہیں ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کابل پاکستان کو غیر روایتی جنگی حربوں میں الجھا سکتا ہے۔
وینسٹین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف طالبان کی ’انشورنس پالیسی‘ ہے۔ وہ ٹی ٹی پی کو کچھ آزادی دے کر یا ان کے حملے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔
اسفندیار میر خبردار کرتے ہیں کہ اگر سرحد پار دہشت گردی کی اجازت دی گئی تو اس سے یقینی طور پر کئی بین الاقوامی خدشات پیدا ہوں گے۔
اسمتھ کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے کئی اہم علاقائی منصوبے متاثر ہوسکتے ہیں۔
ان کے مطابق متاثر ہونے والے منصوبوں میں سینٹرل ایشیا ساؤتھ ایشیا الیکٹرسٹی ٹرانسمیشن اینڈ ٹریڈ پراجیکٹ جسے کاسا 1000 بھی کہا جاتا ہے سرِ فہرست ہے۔ یہ بجلی کی قلت کا سامنا کرنے والے پاکستان کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیا سے بجلی فراہمی کا منصوبہ ہے۔
ماہرین کے مطابق افغان طالبان ان زمینی راستوں کو بھی بند کر سکتے ہیں جنھی پاکستان وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرتا ہے۔
رواں ہفتے پاکستان کی وزارتِ تجارت کے ایک وفد نے افغان ہم منصب حکام سے ملاقات کی ہے جبکہ سرحدی جھڑپوں اور گرزرگاہوں کی بندش کے باعث دو طرفہ تجارت میں کمی آئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان روایتی جنگ کے امکانات انتہائی کم ہیں تاہم وہ خبردار کرتے ہیں کہ طالبان ایک ایسی جنگی حکمتِ عملی رکھتے ہیں جس میں خود کش بمباروں اور ضرورت پڑنے پر مقامی جنگ جو دستوں کو متحرک کرنے جیسے حربے شامل ہیں۔
فورم