بھارت کے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے ماؤ باغیوں کو بدستور بھارت کی سلامتی کو لاحق، چند بڑے خطرات میں سے ایک قرار دیا ہے۔
پیر کو دارالحکومت نئی دہلی میں ریاستی وزرائے اعلیٰ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم نے کہا کہ ماؤ نوازوں کی بغاوت اب ملک کی نو ریاستوں تک پھیل چکی ہے۔
اجلاس کا مقصد داخلی سلامتی کے بارے میں اٹھائے جانے والے نئے اقدامات پر صوبائی حکومتوں کے خدشات دور کرنا تھا۔ اجلاس کے دوران میں بھارتی وزیرِ اعظم نے شرکا کو یقین دلایا کہ نئے اقدامات کے ذریعے مرکزی حکومت صوبوں کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی بلکہ ان کا مقصد سلامتی کو لاحق اندرونی خطرات کا ازالہ کرنا ہے۔
وزرائے اعلیٰ کی یہ سالانہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہورہی ہےجب کانگریس کی مرکزی حکومت کو ریاستوں اور خود اپنے اتحادیوں کی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور کانگریس حکومت کی اتحادی ممتا بینر جی نے مجوزہ 'قومی مرکز برائے انسدادِ دہشت گردی' کے قیام پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے پیر کو ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ بینر جی اور کئی دیگر وزرائے اعلیٰ کا موقف ہے کہ مجوزہ ادارہ صوبوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کے توازن کو متاثر کرے گا۔
لیکن اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیرِاعظم سنگھ نے شرکا کو باور کرایا کہ ان کی حکومت داخلی سلامتی کے معاملات پر ریاستوں کی حلیف ہے اور ان کے خدشات سمجھتی ہے۔
بھارتی وزیرِداخلہ پی چدم برم نے اجلاس کو بتایا کہ ماؤ شدت پسند خود کو بہتر اسلحے سے مسلح کر رہے ہیں اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ ضروری ہے کہ ان سے قومی سطح پر نبٹا جائے۔
بھارت ریاست گجرات کے وزیرِاعلیٰ نریندر مودی، جن کا نام بھارت کے آئندہ متوقع وزیرِ اعظم کے طور پر گردش میں ہے، نے مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سلامتی کے معاملات پر ریاستوں کو اعتماد میں لیے بغیر یک طرفہ طور پر کام کر رہی ہے۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت مجوزہ مرکز کے قیام پر وزرائے اعلیٰ کو اعتماد میں لینے کے لیے آئندہ ماہ ایک اور اجلاس منعقد کرے گی۔