رسائی کے لنکس

کشمیری عسکری کمانڈر کی مبینہ موجودگی، امرتسر میں ریڈ الرٹ جاری


سخت سکیورٹی
سخت سکیورٹی

بھارتی ریاست پنجاب میں پولیس نے اس اطلاع کے بعد کہ اعلیٰ کشمیری عسکری کمانڈر ذاکر موسیٰ کو امرتسر شہر میں دیکھا گیا ہے اُن کے پوسٹر جاری کردیے گئے ہیں جن میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ اگر انہیں وہ کہیں نظر آتے ہیں یا ان کے بارے میں انہیں کوئی آگاہی ہے تو فوری طور پر پولیس کو مطلع کریں۔

ذاکر رشید بٹ عرف ذاکر موسیٰ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کو انتہائی مطلوب سرگرم عسکری کمانڈروں میں شامل ہیں۔ وہ پہلی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے ایک کمانڈر تھے، لیکن جولائی 2017 میں القاعدہ نے بھارت میں ’انصار غزوة الهند‘ نامی ایک نئی عسکری تنظیم قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ذاکر موسیٰ کو اس کا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔

بھارتی پنجاب کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ ذاکر موسیٰ کو مبینہ طور پر امرتسر کے ایک گنجان آبادی والے علاقے میں دیکھا گیا اور ان کے ہمراہ چند اور نامعلوم افراد بھی تھے۔ جس کے بعد شہر کے دینا نگر پولیس اسٹیشن نے ان کی تصویر کے پوسٹر جاری کردیے ہیں۔

اس سے پہلے جمعرات کو بھارتی پنجاب کی پولیس کے کاؤنٹر انٹیلیجنس شعبے نے ریاست میں کالعدم عسکری تنظیم جیش محمد کے جنگجوؤں کی موجودگی کی اطلاعات کے پیشِ نظر ریڈ الرٹ جاری کردیا تھا۔ ایک اخباری رپورٹ میں سراغرساں ادارے کے عہدیداروں سے منسوب بیان میں کہا گیا تھا کہ کم سے کم چھہ یا سات عسکریت پسند کشمیر یا پاکستان سے بھارتی پنجاب میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں؛ اور غالباً ریاست کے فیروزپور علاقے میں موجود ہیں۔

عہدیداروں کے مطابق، اس اطلاع کے بعد پورے پنجاب بالخصوص سرحدی اضلاع میں ریڈ الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔

ادھر شورش زدہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں پنچایتی انتخابات کے موقعے پر حفاظت کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے ہیں۔ انتخابات کے پہلے مرحلے پر کل سنیچر کو سرحدی ضلع کپوارہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے لوگوں سے ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے اور ہفتے کے روز عام احتجاجی ہڑتال کرنے کے لئے کہا ہے۔

اُن کا استدلال ہے کہ ’’بھارتی آئین کے تحت کرائے جانے والا کوئی بھی انتخابی عمل حقِ خود ارادیت کا نعم البدل نہیں ہوسکتا، جس کا وعدہ کشمیری عوام سے کیا گیا ہے اور جس کی ضمانت اقوام ِ متحدہ کی متعلقہ قرارداوں میں دی گئی ہے‘‘۔

اس الزام کا کہ مزاحمتی قیادت ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر ہڑتال کی اپیل جاری کرنے کی عادی بن گئی ہے، سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ "ہمارے پاس احتجاج کرنے کا اور کونسا ذریعہ ہے۔ ہماری بات سنی نہیں جاتی ہے یہاں تک کہ ہمیں سمینار اور سمپوزیم تک منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جلسے کرنے، جلوس نکالنے اور دھرنے دینے کی بات تو دور رہی۔ ہمیں تعزیتی مجالس کا انعقاد کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ مسجدوں میں جانے اور جمعے کے اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔ ان حالات میں جموں کشمیر کے عوام ہڑتال کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔"

اس دوران، بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان ایسی کارروائیاں جاری رکھتا ہے جن سے بھارت کے مفادات کو ذق پہنچتی ہو تو اسے اس کے لئے سزا دی جانی چاہیے۔

متنازعہ کشمیر کی سرحدوں پر حال ہی میں نشانہ لگا کر تین بھارتی فوجیوں کو ہلاک کئے جانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بھارتی فوجی کمانڈر نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستانی فوج کے خلاف مناسب کارروائی کی گئی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG