بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک دن پہلے ایک بم دھماکے میں سات شہریوں کی ہلاکت پر سوگ منانے اور حفاظتی دستوں کے ہاتھوں ہو رہی انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں پر احتجاج کرنے کے لئے پیر کو ایک عام ہڑتال کی گئی۔
ہڑتال کے لئے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے ایک اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی۔ تاجروں کی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور کشمیری ہندؤں کی تنظیم کشمیری پنڈت سنگھرش سمتی نے اپیل کی تائید کی تھی۔
ہڑتال کی وجہ سے وادئ کشمیر اور ریاست کے جموں خطے کی مسلم اکثریتی چناب وادی میں بازار، بنک اور دوسرے کاروباری ادارے، بیشتر اسکول اور کالج اور کئی سرکاری دفاتر بند رہے اور سڑکوں سے ٹرانسپورٹ سروسز غائب رہیں۔ وادئ کشمیر اور گرمائی صدر مقام سرینگر اور چناب وادی کے بانہال قصبے کے درمیان ٹرین سروسز معطل کی گئیں اور جنوبی کشمیر میں انٹرنیٹ سہولیات روک دی گئی ہیں۔
سیاسی لحاظ سے انتہائی حساس سمجھے جانے والے پُرانے سرینگر شہر میں بھاری تعداد میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستے بٹھادئے گئے ہیں۔ عہدیداروں نے کہا کہ ایسا ان کے الفاظ میں 'تشدد کے عنصر کو ناکام بنانے' کے لئے کیا گیاہے۔
'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے لوگوں سے کل منگل کو سرینگر کے تاریخی چوراہے لال چوک پر جمع ہونے کے لئے کہا ہے جس کے پیشِ نظر اس پورے علاقے کی ناکہ بندی کی جارہی ہے اور کئی آزادی پسند لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا ہے یا پولیس انہیں پکڑ کر لے گئی ہے۔
منگل ہی کو بھارتی وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ صورتِ حال کا بنفسِ نفیس جائزہ لینے کے لئے ریاست کے ایک روزہ دورے پر سرینگر پہنچ رہے ہیں۔
اتوار کو جنوبی کشمیر کے کُلگام ضلعے کے لارو گاؤں میں سرکاری دستوں کے ساتھ ہوئی ایک جھڑپ میں کالعدم عسکری تنظیم جیشِ محمد کے تین اراکین ہلاک ہوئے تھے۔ بعد اذاں انکاؤنٹر کی جگہ پر پیش آئے بارودی مواد کے ایک زور دار دھماکے میں سات شہری ہلاک اور کئی دوسرے زخمی ہوئے تھے۔
ان واقعات کے بعد کُلگام اور ہمسایہ ضلع اننت ناگ میں مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے ہجوموں کے خلاف سرکاری دستوں کی طرف سے کی گئی کارروائی میں ساٹھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے۔
اتوار ہی کو متنازعہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائین کے سُندر بنی راجوری علاقے میں ایک جھڑپ کے دوران تین بھارتی فوجی اور دو مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے تھے جبکہ وادئ کشمیر کے ترال علاقے میں عسکریت پسندوں کے چھپ کر کئے گئے حملے میں نیم فوجی دستے سیما شسترہ بل یا ایس ایس بی کا ایک اہلکار ہلاک ہوا تھا۔
پیر کو تشدد میں مارے گئے شہریوں اور عسکریت پسندوں کے سوگ میں اور سرکاری دستوں کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف کی گئی ہڑتال کے دوران وادئ کشمیر کے چند علاقوں میں لوگوں نے مظاہرے کئے۔ کہیں کہیں تشدد اور پولیس پر پتھراؤ کرنے کے معمولی واقعات بھی پیش آئے۔
اس دوران پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کی اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، " بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مقبوصہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں کے قتلِ عام کا نیا سلسلہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق بات چیت کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے حل کی جانب پیش رفت کا احساس کرے"
عمران خان کی ٹویٹ کے جواب میں کشمیر کے مذہبی اور سیاسی راہنما میرواعظ عمر فاروق نے سماجی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا۔ "کشمیری عوام پاکستان کی تشویش کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن جبر کی ہولناک چکی اور بھارتی ریاست کے ہاتھوں ہورہی کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی پامالیوں کے سلسلے کو بند کرنے کے لئے پاکستان کی طرف سے اس تنازعے کے ایک فریق کی حیثیت سے فوری طور پر مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے"