بھارت کی مسلح افواج کے ایک ٹریبیونل نے کشمیر میں تین نوجوانوں کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کرنے پر فوجی افسر کو ملنے والی کورٹ مارشل کی سزا معطل کر دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کیپٹن بھوپیندر سنگھ کو جموں کی ایک سول جیل میں منتقل کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ بھارتی فوج کے ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے کیپٹن سنگھ کو ملازمت سے برخواست کر دیا ہے۔ انہیں پینشن اور دوسری مراعات سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ کیپٹن سنگھ 2015میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 2020 میں فرضی جھڑپ میں نوجوانوں کی ہلاکت پر رواں برس مارچ میں کیپٹن بھوپیندر سنگھ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
آرمی ٹریبیونل نے کیپٹن بھوپیندر سنگھ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ٹریبیونل کے مطابق کورٹ مارشل میں اس کیس میں گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے اور شہادت و ثبوت جمع کرنے کے سلسلے میں کوتاہی برتی گئی جو مسلمہ اصولوں اور ضوابط سے انحراف تھا۔
فرضی جھڑپ میں مارے گئے نوجوان محمد امتیاز کے والد صابر حسین نے ٹریبیونل کے فیصلے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں یہ احکامات سن کر دکھ ہوا۔
ان کے بقول ’’ہم غریبوں کی کون سنتا ہے۔ ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔‘‘
صابر حسین نے مزید کہا کہ ہم نے کیپٹن بھوپیندر سنگھ اور اُن کے ساتھیوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ فوجی عدالت نے اُسے عمر قید کی سزا سنائی اور اب اسے بھی معطل کر دیا گیا۔
انہوں نے ٹریبیونل کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کے عزم کا اظہار کیا کہ ہم اسے قطعی نہیں چھوڑیں گے۔ ہم انصاف کے لیے آخری دم تک لڑیں گے۔
ایک اور نوجوان ابرار احمد خان کے والد بگا خان کا کہنا تھا کہ تین بچوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ مجرم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اسے کیسے رہائی ملی ہے۔ ہم اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
حزبِِ اختلاف کی ٹریبیونل کے فیصلے کی پر تنقید
کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کا کہا تھا کہ ابھی ابھی امشی پورہ فرضی جھڑپ میں ہلاک شہری کے والد سے بات ہوئی۔ وہ آرمی ٹریبیونل کی طرف سے فوجی کیپٹن کو جس نے خود جرم کا اعتراف کیا تھا، دی گئی عمر قید کی سزا کو معطل کرنے کے فیصلے پر انتہائی مایوس ہیں ۔
نئی دہلی میں برسرِِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)نے اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کو بے جا قرار دیا اور اسے اس معاملے کو جو اس کے بقول مکمل طور پر قانونی نوعیت کا ہے سیاسی رنگ نہ دینے کا مشورہ دیا۔
بی جے پی کے ترجمان بریگیڈئر (ر) انیل گپتا نے کہا کہ ہم قانون کا احترام کرتے ہیں۔ سزا پانے والا فوجی افسر تلافی کا حق دار تھا ۔ اس نے اس کے لیےآرمڈ فورسز ٹربیونل میں درخواست دی تھی جس نے اس کی سزا معطل کردی ہے۔
ان کے بقول یہ ایک خالص قانونی معاملہ ہے۔ اپوزیشن کو اسے سیاسی رنگ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
کیپٹن بھوپیندر سنگھ پر کورٹ مارشل میں ثابت ہوا تھاکہ انہوں نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1990 سے نافذ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ ( افسپا) کا ناجائز استعمال کرکے تین نوجوانوں کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا تھا۔
افسپا وہ قانون ہے جس کے تحت مسلح افواج کو علاقے میں جاری شورش سے نمٹنے کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔
فرضی جھڑپ کا یہ واقعہ کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیان کے گاؤں امشی پورہ میں 18 جولائی 2020 کو پیش آیا تھا۔
کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے یہ تین نوجوان 25سالہ محمد ابرار، 20 سالہ محمد امتیاز اور 16سالہ ابرار احمد خان 17 جولائی 2020 کو مزدوری کرنے کے لیے شوپیان پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا۔
شوپیاں پہنچنے والے روز، شام کے وقت انہوں نے اپنے گھر والوں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ انہیں ایک مقامی باغ میں کام مل گیا ہے جسے وہ اگلے روز شروع کر رہے ہیں۔
یہ ان کا گھرو الوں سے آخری رابطہ تھا۔ ان کے اہلِ خانہ نے پولیس اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ کشمیر میں فون اور دوسرے مواصلاتی ذرائع اکثر بند رہتے ہیں تو وہ یہ سمجھے کہ ان کے عزیز ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ لیکن جب ان کا انتظار تشویش میں بدلا تو انہوں نے مقامی پولیس تھانے میں ان نوجوانوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔
بھارت کی فوج نے 18 جولائی 2020 کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں شوپیان کے امشی پورہ میں ایک آپریشن کے دوران تین دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
کشمیر کی پولیس نے فوج کے اس بیان کی نہ صرف تصدیق کی تھی بلکہ ہلاک ’’دہشت گردوں‘‘ کے استعمال میں رہنے والا اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا ۔
پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہلاک شدگان کی شناخت نہیں ہوسکی ہے اور ان کی لاشیں وصول کرنے کے لیے بھی کوئی سامنے نہیں آیا جس کے بعد انہیں شوپیان سے 250 کلومیٹر دور سرحدی ضلع بارہولہ کے ایک قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
اس قبرستان میں عمومی طور پر کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے غیر ملکی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا رہا ہے۔
پولیس کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ’’دہشت گردوں‘‘ کی ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں تدفین سے پہلے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور ان کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے ہیں۔
کیپٹن بھوپیندر سنگھ کے خلاف کورٹ مارشل کا آغاز اپریل 2021 میں ہوا تھا اور رواں برس مارچ میں انہیں مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
ان کی سز ا کے اعلان پر فرضی جھڑپ میں مارے گئے نوجوانوں کے لواحقین اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے خیر مقدم کیا تھا۔
بھارتی فوج نے کہا تھا کہ کیپٹن بھوپیندر سنگھ کے خلاف کارروائی کو ایک سال سے بھی کم عرصے کےاندر اندر مکمل کیا گیا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارتی فوج انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہے اور عدل و انصاف کا بول بالا چاہتی ہے۔
بیان کے مطابق بھارت کی فوج کسی قسم کی بدنظمی برداشت نہیں کرسکتی۔
تاہم یہ بھی کہا گیا تھا کہ فوجی عدالت کی طرف سے کیپٹن بھوپیندر سنگھ کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد اعلیٰ فوجی حکام کی توثیق کے بعد ہی ہوگا۔
اس سے پہلے بھارتی فوج نے بیان میں کہا تھا کہ جھڑپ سے متعلق شروع کی گئی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں اور یہ معلوم ہوا ہے کہ آپریشن میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے جب کہ افسپا سے بھی تجاوز کیا گیا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فوج کے وضع کردہ طریقۂ کار کی بھی خلاف ورزی کی گئی جس کی پاداش میں اس آپریشن میں شامل افسران اور سپاہیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
جب یہ ثابت ہوا کہ نوجوانوں کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا ہے تو جموں و کشمیر پولیس نے اس واقعے کے بارے میں ابتدائی بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے یہ بیان مقامی پولیس تھانے میں فوج کی طرف سے واقعے کی درج کرائی گئی رپورٹ کی بنیاد پر دیا تھا۔
پولیس نے بھوپیندر سنگھ اور ان کے ساتھیوں پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا ۔
پولیس نے اس سلسلے میں ایک مقامی عدالت میں دائر کی گئی فردِ جرم میں فوج کے لئے مبینہ طور پر کام کرنے والے دو شہریوں تابش نذیر اور بلال احمد لون پر بھی اس واقعے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
فردِ جرم کے مطابق نوجوانوں کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کرنے کے بعد کیپٹن بھوپیندر سنگھ نے تمام ثبوت مٹا دیے تھے اور پھر فوج سے نقد انعام حاصل کرنے کے لیے ایک مجرمانہ سازش کے تحت پولیس کے سامنے جھوٹا بیان دے کر اسے گمراہ کیا تھا۔
سول کورٹ میں اس مقدمے پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
اس دوران کیپٹن بھوپیندر سنگھ نے اپنے وکیل ایس ایس پانڈے کے ذریعے آرمڈ فورسز ٹریبیونل کے پرنسپل بینچ کے سامنے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔
انہوں نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ فوجی عدالت میں کی گئی کارروائی میں غیر قانونی طور طریقہ اپنایا گیا اور اس کے فیصلے میں کئی طرح کے تضادات نظر آرہے ہیں۔
کیپٹن بھوپیندر سنگھ کی درخواست پر نئی دہلی میں ٹریبیونل کے پرنسپل بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کو سنائی گئی عمر قید کی سزا معطل کی جاتی ہے، اس کے ساتھ انہوں نے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا بھی حکم دیا۔
ٹریبیونل نے یہ واضح کیا ہے کہ کیپٹن بھوپیندر سنگھ کی، جنہوں نے تین سال قید میں گزارے ہیں، عمر قید کی سزا معطل کی جاتی ہے۔ البتہ ان کے خلاف فوجی عدالت کی دیگر نوعیت کی تادیبی کارروائی اور سنائی گئی باقی سزائیں برقرار رہیں گی۔
ٹریبیونل نے یہ بھی کہا کہ اس کا فیصلہ اس معاملے میں با اختیار اعلیٰ فوجی قیادت کے فیصلےمیں حائل نہیں ہوگا جو آرمی ایکٹ 1950کی دفعہ 153کے تحت کیپٹن بھوپیندر سنگھ کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کی توثیق کرنے اور اس معاملے میں حتمی فیصلہ لینے کی مجاز ہے۔
کیپٹن بھوپیندر سنگھ کے وکیل ایس ایس پانڈے نے ٹریبیونل کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
قبل ازیں آرمڈ فورسز ٹریبیونل نے لائن آف کنٹرول کے مژھل علاقے میں 2010میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں تین نوجوانوں کی فرضی جھڑپ میں ہلاکت پر 2017 میں سنائی گئی سزا معطل کی تھی۔
فوج نے فرضی جھڑپ کے بعد ان نوجوانوں کو غیر ملکی دہشت گرد قرار دیا تھا۔ جھڑپ میں ملوث ایک افسر سمیت پانچ فوجی اہل کاروں کوعمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
مارے جانے والے نوجوانوں کے لواحقین ، اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کارکنوں نے اس کو انصاف کا قتل قرار دیا تھا۔