رسائی کے لنکس

’بھارتی حکومت اور علیحدگی پسندوں میں براہ راست مذاکرات خارج از امکان‘


بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت۔ فائل فوٹو
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت۔ فائل فوٹو

بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے حکومت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں کے مابین براہ راست مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا۔ انھوں نے علہدگی پسندوں سے اپیل کی کہ وہ حکومت کے مقرر کردہ مذاکرات کار سے بات چیت کریں۔

انھوں نے پیر کے روز کہا کہ مذاکرات کار تمام فریقوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ جو بھی چاہے ان سے بات کر سکتا ہے۔ اگر علہدگی پسند مذاکرات کی میز پر نہیں آئیں گے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔

یاد رہے کہ حکومت نے گزشتہ سال نومبر میں آئی بی کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تمام فریقوں سے مذاکرات کی غرض سے اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا۔ انھوں نے بعض سیاسی شخصیات سے گفتگو کی ہے لیکن علہدگی پسند راہنماؤں اور عسکریت پسندوں نے ان سے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔

آرمی چیف نے پنجاب میں میمن فوجی ٹھکانے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے والے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اس سے باز رہیں ورنہ ”انھیں ختم کر دیا جائے گا“۔

انھوں نے کہا کہ ”دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی زندگی لمبی نہیں ہے“۔ بقول ان کے ہم آپ کو ہتھیار ڈالنے کا ایک موقع دے رہے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت کی جانب سے مذاکرات کار کے تقرر سے اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا او رنہ ہی مذاکراتی عمل میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔

ایک تجزیہ کار اور بائیں بازوں کی جماعت سی پی آئی سے وابستہ جوگیندر شرما نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ علہدگی پسند راہنماؤں اور پاکستان دونوں سے بات کرے۔ جب تک پاکستان سے بات چیت نہیں ہو گی اس مسئلے کا حل نکلنا مشکل ہے۔

انھوں نے کہا کہ مذاکرات سے کمزور بھاگتے ہیں طاقتور نہیں۔ کوئی بھی مسئلہ ہو مذاکرات سے ہی حل ہو سکتا ہے۔

دریں اثنا دہلی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری نے روس میں طالبان کے ساتھ ہونے والے کثیر فریقی مذاکرات میں بھارت کی غیر سرکاری شمولیت کو ایک مثبت قدم قرار دیا لیکن اسی کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ حکومت کشمیر کے علہدگی پسند راہنماؤں سے بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان سے ہونے والے مذاکراتی عمل میں تو شرکت کی لیکن بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علہدگی پسندوں سے مذاکرات کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس نے جو پالیسی افغانستان کے لیے اختیار کی ہے وہی کشمیر کے لیے بھی اختیار کرے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت اندرون ملک قیام امن کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتی۔

احمد بخاری نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ وادی کے نوجوان ”تخریبی راستے“ پر کیوں چل پڑے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG