بھارت کی فوج نے اپنی خواتین اہلکاروں کو پہلی بار نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہری علاقوں میں قائم چوکیوں پر تعینات کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ خواتین اہلکاروں کی یہ تعیناتی شورش زدہ علاقے میں عام لوگوں اور فوج کے درمیان دوری کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
ان خواتین اہلکاروں کا تعلق بھارت کی فوج کی آسام رائفلز سے ہے جنہیں جمعے کو کشمیر کے وسطی ضلعے گاندربل میں موبائل چیک پوسٹس پر باضابطہ طور پر تعینات کیا گیا۔ یہ اہلکار بستیوں میں جاکر کشمیری خواتین سے میل جول بڑھانے کی بھی کوشش کر رہی ہیں۔
نونر نامی گاؤں کی ایک خاتون سعیدہ شفیع نے بتایا کہ ایسی تین خواتین فوجی اہلکار جمعے کی دوپہر ان کے گھر آئیں اور ان کا حال احوال پوچھنے کے بعد بات چیت کے دوران اس بات پر زور دیا کہ مائیں اپنے بیٹوں اور بہنیں اپنے بھائیوں کو بندوق سے دور رکھیں۔
بھارت کی فوج کی 34 آسام رائفلز کے کمانڈنگ افسر آر ایس کراکوٹی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرینگر کے قریب واقع ضلع گاندربل میں تعینات کی گئی یہ خواتین اہلکار دراصل رائفل ویمن ہیں۔ جو آسام رائفلز کا ایک اہم حصہ ہیں اور کشمیر میں جاری فوجی آپریشنز کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرتی آ رہی ہیں۔ تاہم ان خواتین اہلکاروں کو پہلی بار موبائل چیک پوائنٹس پر تعینات کیا گیا ہے تاکہ عام شہریوں اور فوج کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو کم کیا جا سکے۔
آسام رائفلز کے خواتین دستے کا قیام 2016 میں عمل میں لایا گیا تھا اور اسے فوری طور پر بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں شورش کو دبانے کے لیے کیے جانے والے آپریشنز کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔
آسام رائفلز میں شامل خواتین کے دستے کے ایک حصے کو کچھ عرصہ پہلے بھی کشمیر میں تعینات کیا گیا تھا۔ یہاں اسے بھارت مخالف مسلح تحریک کو دبانے کے لیے جاری فوجی مہم میں شامل کیا گیا تھا۔
آل ویمن آسام رائفلز جنوری 2019 میں اُس وقت بھارت کے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں نظر آئی جب اس کے ایک چاک و چوبند دستے نے نئی دہلی کے راج پتھ پر ہونے والی یومِ جمہوریہ کی پریڈ میں پہلی بار حصہ لیا تھا۔
سرینگر میں بھارت کی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ آسام رائفل ویمن جموں و کشمیر میں امن قائم کرنے میں فوج کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ چیک پوائنٹس پر گاڑیوں میں سفر کرنے والی خواتین اور بچوں کی جامہ تلاشی لیتی ہیں اور عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز کے دوران کی جانے والی خانہ تلاشیوں کے عمل میں بھی بھر پور حصہ لیتی آ رہی ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ رائفل ویمن کو اس سے پہلے اگست 2020 میں سرحدی ضلعے کپوارہ میں ان اطلاعات کے بعد تعینات کیا گیا تھا کہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن کی دوسری جانب سے اسمگل کی جانے والی منشیات اور بعض دوسری غیر قانونی اشیا کو اسمگلروں کے محفوظ ٹھکانوں تک پہنچانے کے لیے خواتین استعمال ہو رہی ہیں۔
گزشتہ برس تعیناتی کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ اس پہاڑی علاقے میں گاڑیوں میں سفر کرنے یا پیدل چلنے والی مشکوک خواتین کو روک کر ان کی اور ان کے سامان کی تلاشی لیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
بھارت کی ریاست مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی رائفل وومن ریکھا کماری نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اور اُن کی ساتھی کشمیری لڑکیوں میں بھارت کے بارے میں پائے جانے والے مفروضوں اور خرافات کو، جو بعض غلط فہمیوں اور فرضی داستانوں کی دین ہیں، دور کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔
'کشمیر کی لڑکیوں سے یہ کہہ رہی ہیں کہ وہ اونچے خواب دیکھنا شروع کریں'
ان کے بقول وہ کشمیر کی لڑکیوں سے یہ کہہ رہی ہیں کہ وہ اونچے خواب دیکھنا شروع کریں اور زندگی میں کچھ بڑا کرنے کو ہدف بنائیں۔
ریکھا کماری کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے بھارت کی شورش زدہ ریاستوں منی پور اور ناگا لینڈ میں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر کے لوگ بڑے دلکش ہیں اور ان کے ساتھ میل ملاپ اچھا لگتا ہے۔