بھارت میں، کروڑوں خواتین کے بلا معاوضہ گھریلو کام پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن تامل ناڈو میں ایک حالیہ عدالتی فیصلے کو جس میں ایک گھریلو خاتون کے کام کو اپنے شوہر کی آمدنی میں حصہ ڈالنے کے مترادف تسلیم کیا گیا ہے، ایک تاریخی فیصلے کے طور پر سراہا گیا ہے جو اصلاحات کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
خواتین کے حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ خاص طور پر ایسے ملک میں اہم ہے جہاں ورک فورس میں خواتین کی شرکت بہت کم ہے اور زیادہ تر خواتین گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔
جنوبی ریاست تامل ناڈو میں گھریلو تنازعہ کے ایک کیس میں، شوہر نے جوڑے کی تمام جائیدادوں اور اثاثوں پر ملکیت کا دعویٰ کیا تھا جو بقول اس کے شوہر کی کمائی سے خریدے گئے تھے۔ 2007 میں اس کی موت کے بعد بچوں کی طرف سے کیس کی پیروی کی گئی۔
21 جون کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں، مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس کرشنن راماسامی نے فیصلہ دیا کہ خاندان کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون کا جائیداد اور اثاثوں میں برابر کا حصہ ہے۔
خاتون کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جب ان کی شادی ہوئی تو جوڑے کے درمیان باہمی مفاہمت تھی کہ بیوی گھر میں رہے گی اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرے گی جب کہ شوہر بیرون ملک کام کر سکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ یا تو شوہر کی کمائی سے یا بیوی کی طرف سے خاندان اور بچوں کی خدمت اور دیکھ بھال کے ذریعے کی جانے والی شراکت کا مطلب یہ ہوگا کہ دونوں اپنی مشترکہ کوششوں سے جو کچھ کماتے ہیں اس کے برابر کے حقدار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک خاتون خانہ چھٹی کے بغیر 24 گھنٹے کام کرتی ہے جس میں بطور باورچی، مینیجر، "ہوم ڈاکٹر،" اور "ہوم اکانومسٹ" سب کے کام شامل ہیں۔
جج نے کہا کہ بیوی نے عشروں تک گھریلو کام انجام دے کر خاندانی اثاثوں کے حصول میں مدد کی تھی۔جج نے اپنے فیصلے میں نوٹ کیا، "سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے اپنے خوابوں کو قربان کر کے اپنی پوری زندگی خاندان اور بچوں کے لیے وقف کر دی۔"
جج نے کہا کہ اگرچہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو بیوی کی شراکت کو تسلیم کرتا ہو، تاہم عدالت کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔
فیصلے پر ردعمل:
خواتین کے حقوق کی ایک وکیل فلاویا ایگنس نے وی او اے کو بتایا، "یہ بہت اہم حکم ہے کیونکہ یہ بلا معاوضہ گھریلو مزدوری کے ذریعے خواتین کی شراکت کو تسلیم کرتا ہے اور اسے شوہر کی جائیداد میں حصہ میں تبدیل کرتا ہے۔"
جیسا کہ زیادہ تر ممالک میں ہوتا ہے، بھارت میں خواتین کو بلا معاوضہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اندازوں کے مطابق، ملک کی 16 کروڑ گھریلو خواتین گھریلو کاموں میں روزانہ چھ سے سات گھنٹے صرف کرتی ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ، لیبر فورس میں خواتین کا حصہ تقریباً 29 فیصد ہے،جو زیادہ تر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ دنیا بھر میں اس بلا معاوضہ گھریلو کام کاج کو خواتین کے ملازمتوں میں آنے یا آگے بڑھنے میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایگنس نے کہا، "حالیہ فیصلہ یقینی طور پر گھریلو خواتین کے حقوق کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔"
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طلاق یافتہ خواتین کے لیے خاصا اہم ہوگا۔ بھارت میں، طلاق یافتہ خواتین کو کفالت اور نفقہ مل جاتا ہے، لیکن وہ شوہر کی جائیداد میں حصے کا دعویٰ نہیں کر سکتیں جب تک کہ وہ اسے خریدنے میں اپنا مالی حصہ ثابت نہ کر دیں۔
لندن کے کنگز کالج میں لاء اینڈ سوشل جسٹس کی پروفیسر پربھا کوٹیسوارن نے وی او اے کو بتایاکہ، "اس فیصلے کے طلاق یافتہ خواتین کے لیے بہت دور رس اثرات ہوں گے جو بصورت دیگر برسوں میں ’مینٹینینس‘ کی معمولی رقم حاصل کر پاتی ہیں اور معاشی طور پر ان کی مالی صورت حال شادی شدہ زندگی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بدتر ہو جاتی ہے۔"
بھارت میں عدالتوں نے ماضی میں سڑک کے حادثات کے متعدد مقدموں میں جن میں کسی خاتون کی موت ہوئی ہو، گھریلو خواتین کے کام کاج کا معاوضہ دیا ہے ۔
کوٹیشورن، جنہوں نے 1968 سے لے کر پانچ دہائیوں کے دوران دائر کیے گئے ایسے تقریباً 200 مقدمات کی تحقیق کی ہے، کہا کہ ججوں نے سڑک کے حادثات میں ہلاک ہونے والی خواتین کے بلا معاوضہ کام کی قیمت لگا کر ان کے زیرِ کفالت افراد کو معاوضہ دیا ہے۔
راستے کھولنے والا فیصلہ
لیکن حالیہ فیصلہ پہلا ہے جو ایک گھریلو خاتون کو اپنے شوہر کی جائیداد پر اس بنیاد پر دعویٰ کا حق دیتاہے کہ اس کے کردار کے بغیر شوہر کے لیے کام کرناممکن نہیں تھا۔
پروفیسر پربھااسے ایک "پاتھ بریکنگ" فیصلہ قرار دیتی ہیں۔ انہوں نے VOA کو بتایا کہ "یہ کیسز مل کر بھارتی قانون میں ایک طویل التواء کی شکاراصلاح کے دروازے کھولیں گے، یعنی ازدواجی جائیداد ( matrimonial property regime)کا نظام قائم کریں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ شادی شدہ خواتین معاشی انصاف حاصل کر سکیں"۔
وہ کہتی ہیں"مجھے امید ہے کہ ملک بھر کی دیگر عدالتیں اس فیصلے کی پیروی کریں گی اور پارلیمنٹ اس بارے میں قانون میں فوری اصلاحات کی ضرورت کا نوٹس لے گی۔"
تاہم، دیگر بھارتی ریاستوں میں اعلیٰ عدالتیں تامل ناڈو کی عدالت کی قائم کردہ نظیر کی پابند نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے علمبرداروں نے خبردار کیا ہےکہ گھریلو خواتین کی معاشی شراکت داری کے اعتراف کا راستہ ابھی طویل ہے۔
وی او اے کی انجناپسریچہ کی رپورٹ۔