رسائی کے لنکس

بھارت میں کرونا سے ہونے والی اموات تین لاکھ سے متجاوز


ملک میں 19 مئی کو کرونا سے سب سے زیادہ چار ہزار 529 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔
ملک میں 19 مئی کو کرونا سے سب سے زیادہ چار ہزار 529 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔

بھارت میں عالمی وبا کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

بھارت میں جہاں کرونا کے مثبت کیسز کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے وہیں وبا سے ہونے والی یومیہ اموات کی تعداد اب بھی چار ہزار سے زائد ہے۔

وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اتوار کو دو لاکھ 22 ہزار 315 افراد میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے، جب کہ وائرس سے مزید چار ہزار 454 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

بھارت میں کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی کُل تعداد تین لاکھ تین ہزار 720 تک پہنچ گئی ہے۔

امریکہ اور برازیل کے بعد بھارت وہ تیسرا ملک بن گیا ہے جہاں کرونا کے باعث سب سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔

ملک میں 19 مئی کو کرونا سے سب سے زیادہ چار ہزار 529 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔

بھارت کی ریاست تمل ناڈو، مہاراشٹرا، کرناٹک، کیرالہ اور آندھرا پردیش میں کرونا کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

دوسری جانب ملک میں ویکسین لگانے کا عمل بھی جاری ہے اور اتوار کو نو لاکھ 42 ہزار 722 ویکسین کی خوراکیں لگائی گئیں۔

بھارت میں اب تک ویکسین کی مجموعی طور پر 19 کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار 962 خوراکیں فراہم کی جا چکی ہیں۔

ویکسین کی قلت کے سبب 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگانے کے مراکز بند

رپورٹس کے مطابق، ملک میں اب ویکسین کی کافی قلت پیدا ہو گئی ہے جس کے باعث متعدد ریاستوں میں 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگانے کے مراکز بند ہو گئے ہیں۔

اس ضمن میں دہلی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر مرکزی حکومت نے ویکسین کی مزید خوراکیں فراہم نہیں کیں تو 45 سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگانے کا عمل بھی رک جائے گا۔

تاہم، مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اب بھی ریاستوں کے پاس ویکسین کی خاطر خواہ خوراکیں موجود ہیں۔

دوسری جانب بھارت کی متعدد ریاستوں میں لاک ڈاؤن میں توسیع اور پابندیوں کا نفاذ جاری ہے۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے اتوار کو لاک ڈاؤن میں 31 مئی تک توسیع کر دی ہے۔

ان کے بقول، اگر کیسز میں اسی طرح کمی آتی رہی تو اگلے ہفتے سے پابندیوں میں کمی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

بلیک فنگس کے کیسز میں بتدریج اضافہ

دریں اثنا، بھارت میں بلیک فنگس کے کیسز میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق، ملک میں اب تک بلیک فنگس کے آٹھ ہزار 800 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا کے مریضوں کو خاصی تعداد میں اسٹیرائڈ دینے کی وجہ سے ان میں قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بلیک فنگس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسپتالوں میں آلات کی مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بھی بلیک فنگس پھیل رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق جو مریض اپنے گھروں پر علاج کروا رہے ہیں ان میں بلیک فنگس کے کیسز کم دیکھے گئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلیک فنگس کے نصف کیسز مغربی ریاستوں گجرات اور مہاراشٹرا میں درج کیے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں، مزید 15 ریاستوں میں بھی بلیک فنگس کے آٹھ سے 900 تک کیسز پائے گئے ہیں۔

بلیک فنگس ​کو وبائی مرض قرار​ دینے کی ہدایت

بلیک فنگس کے کیسز میں اضافے کے پیشِ نظر مرکزی حکومت نے تمام ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اسے وبائی مرض قرار دے دیں۔

ملک کے معروف ماہر امراض چشم ڈاکٹر الطاف اکبر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ بلیک فنگس کا حملہ ہر مریض پر نہیں ہوتا بلکہ یہ ان لوگوں پر ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت اسٹیرائڈ لینے کی وجہ سے کم ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرونا مریضوں کو صحت یاب ہو جانے کے بعد بھی ماسک لگانا ضروری ہے اور انہیں صفائی ستھرائی پر بھی خاص توجہ دینی چاہیے۔

ان کے بقول کرونا سے صحت یاب ہونے والے مریض یا تو دستانے پہنے رہیں یا پھر بار بار ہاتھ دھوئیں۔

معروف ماہر امراض چشم ڈاکٹر الطاف اکبر نے ہدایت کی کہ کرونا سے صحت یاب ہونے والے افراد کو گرد و غبار اور دھول مٹی والے مقامات پر جانے سے بچنا چاہیے اور کرونا سے ٹھیک ہونے کے کم از کم 15، 20 دنوں تک یہ احتیاط ضروری ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ بلیک فنگس ایک خطرناک بیماری ہے، اگر کسی مریض کا صرف سانس لینا متاثر ہوا ہے تو اس کے جان جانے کے 50 فی صد امکانات ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگر کسی مریض کا پھیپھڑا متاثر ہوا ہے تو ہلاکت کے 75 فی صد امکانات ہوتے ہیں جب کہ اگر اس کا پورا جسم متاثر ہو گیا ہے تو ایسے مریضوں کے بچنے کے صرف دو ہی فی صد امکانات ہوتے ہیں۔

ان کے بقول یہ متعددی بیماری نہیں ہے اور سب کو نہیں ہوتی، اس میں صفائی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر الطاف اکبر نے بتایا کہ ذیابیطس کے مریضوں کو بلیک فنگس کا زیادہ خطرہ ہے۔

'کرونا سے ہلاکتوں کی شرح جلد کم ہو جائے گی'

کرونا کیسز میں کمی اور اموات میں اضافے سے متعلق ڈاکٹر الطاف اکبر نے بتایا کہ 15، 20 روز قبل کرونا کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا اور ان دنوں میں جو مریض اسپتالوں میں داخل ہوئے تھے ان میں زیادہ تر مریض ہلاک ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ شرح اموات تا حال زیادہ ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب جب کہ کرونا کے کیسز کم ہو رہے ہیں تو جلد ہی شرح اموات بھی کم ہو جائے گی۔

ڈاکٹر الطاف اکبر کا کہنا ہے کہ ان کا ذاتی تجربہ بتاتا ہے ویکسین حاصل کرنے والوں میں سے 98 فی صد افراد میں کرونا کا خطرہ نہیں ہوتا۔

ان کے بقول، جن لوگوں کی کرونا کے سبب ہلاکت ہو رہی ہے ان میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہوں نے ویکسین کی خوراک نہیں حاصل کی۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کرونا سے لڑنے میں ایک مؤثر ہتھیار ہے، لیکن چونکہ اس وقت ملک میں ویکسین کی قلت پیدا ہو گئی ہے تو اس لیے ویکسین کی پیداوار میں اضافے کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت مزید کمپنیوں کو ویکسین بنانے کی اجازت دینے پر غور کر ہی ہے۔

ان کے مطابق بھارت میں ابھی صرف دو کمپنیاں 'سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا پونے' اور 'بھارت بائیو ٹیک حیدرآباد' میں ہی ویکسین تیار ہو رہی ہے۔ لیکن اب 'بھارت بائیوٹیک' کی بنگلور کمپنی میں بھی جولائی، اگست تک ویکسین کی تیاری کا آغاز ہو جائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ویکسین بنانے کے لیے مزید لائسنس دینے کی ضرورت ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ویکسین تیار ہو سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ابھی جو دو کمپنیاں ویکسین بنا رہی ہیں ان کی صلاحیت مہینے میں پانچ کروڑ خوراکیں بنانے کی ہے اور اتنی خوراکیں نا کافی ہیں۔ لہٰذا، مزید کمپنیوں میں ویکسین بنانے کا عمل شروع کرنا پڑے گا۔

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ سائنس دانوں نے تیسری لہر کی پیش گوئی کر دی ہے اس لیے اس کے آنے سے قبل ہی زیادہ سے زیادہ ویکسین بنا لینی چاہیے، تاکہ تیسری لہر کے آنے تک ملک کی زیادہ تر آبادی کو ویکسین لگ جائے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG