بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کا ایک 26 سالہ نوجوان پشکار سنگھ مشکل مالی حالات کی وجہ سے تین ماہ قبل دلی چلا آیا۔ وہ اپنی ہائی اسکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر فکر معاش میں لگ گیا اور دلی پہنچنے کے بعد وہ پیسوں کیلئے کوئی بھی کام کرنے پر تیار تھا۔ لیکن وہ نہ صرف کوئی بھی ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اسے ملازمت کے انٹرویو کیلئے بھی نہیں بلایا گیا۔
پشکار سنگھ کا کہنا ہے کہ کوئی ملازمت نہ ملنا بہت پریشانی کی بات ہے۔
پشکار کی طرح بے شمار نوجوان وزیر اعظم نرندر مودی کی طرف سے دکھائے گئے سہانے خوابوں کا شکار ہوئے ہیں جب اُنہوں نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں نوجوانوں کیلئے لاکھوں کروڑوں ملازمتیں پیدا کریں گے۔ نوجوانوں کی اُمیدیں اس وقت اور بھی بڑھ گئیں جب بھارت کو دنیا کی سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی معیشت قرار دیا گیا تھا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتی معیشت سست روی کا شکار ہو گئی ہے جس کے باعث ہزاروں افراد ملازمتوں کے حصول میں ناکام ہو رہے ہیں۔
بھارت میں قتصادی نمو کی شرح اپریل سے جون کے دوران کم ہو کر 5.7 فیصد پر آ گئی جو گزشتہ تین برس کے دوران سب سے کم شرح نمو ہے۔ اقتصادی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارتی معیشت کو اپنی اونچی اقتصادی نمو کی شرح پر واپس پہنچنے کیلئے سخت جدوجہد کی ضرورت ہو گی۔
مومبئی میں کرائسل نامی ریٹنگ ایجنسی کے چیف اکانومسٹ ڈی کے جوشی کا کہنا ہے کہ یہ بہت پریشانی کی بات ہے کیونکہ بھارتی معیشت میں ترقی کی شرح توقع سے کہیں زیادہ کم سطح پر آ گئی ہے۔ اقتصادی ترقی کی شرح گرنے سے بہت سے ناقدین وزیر اعظم نرندر مودی کی اقتصادی بدانتظامی کو مورد الزام ٹھہرانے لگے ہیں۔
اقتصادی ماہرین خاص طور پر مودی حکومت کے دو اقدامات پر شدید تنقید کرنے لگے ہیں۔ ایک تو مودی سرکار کی طرف سے گزشتہ نومبر میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی منسوخی کا فیصلہ ہے ۔ اُس وقت کہا گیا کہ اس کا مقصد ملک میں غیر قانونی رقوم کا خاتمہ کرنا تھا۔ لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ملک میں کاروبار سکڑ کر رہ گیا ہے اور مالی وسائل میں شدید قلت پیدا ہوئی ہے جس سے مالی وسائل پر انحصار کرنے والی معیشت کو دھچکا پہنچا ہے۔
اس کے علاوہ اس سال جولائی میں بھارتی حکومت نے ٹیکسوں میں اصلاحات کا اعلان کیا جس میں جی ایس ٹی میں ردو بدل کیا گیا ۔ اس کا متعدد حلقوں کی جانب سے خیر مقدم بھی کیا گیا۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر عملدرآمد میں سنگین غلطیاں ہوئی ہیں اور اس کے نتیجے میں ٹیکسوں کے کئی ریٹ سامنے آنے سے کاروباری حلقوں میں افراتفری پھیلی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں نوٹوں کی منسوخی اور جی ایس ٹی اصلاحات کے اقدامات اوپر تلے آئے ہیں جن کے باعث اقتصادی نمو میں خطیر کمی واقع ہوئی ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اقتصادی سست روی کا اندازہ بھارتی دارالحکومت میں عام کاروبار کی صورت حال کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جہاں دکاندار گاہکوں کی کمی کا رونا رو رہے ہیں۔ عام طور پر دیوالی کے قریب بازاروں میں بہت رونق دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس سال مارکٹیں سنسان دکھائی دیتی ہیں۔ دلی کا ایک دکاندار منو تلوار کہتا ہے کہ دیوالی کے قریب یہاں لوگوں کی گہما گہمی ہوتی تھی۔ لوگ موبائل فون اور اُن کے اضافی سامان کے بارے میں بہت بے تاب دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اب جبکہ آئی فون۔8 بھی جاری ہو چکا ہے، گاہک نظر نہیں آتے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ معیشت کی ترقی کیلئے نئے اقدام اُٹھا رہی ہے اور اربوں ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم مودی نے پانچ ارکان پر مشتمل اقتصادی مشیروں کا ایک پینل بھی تشکیل دیا ہے۔
بھارت میں ہر سال ایک کروڑ افراد ملازمت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔ مودی کو اُمید تھی کہ وہ پیداواری شعبے میں اضافے کے ساتھ نیم ہنرمند افرادی قوت کیلئے نئے روزگار پیدا کریں گے اور اس مقصد کیلئے اُنہوں نے ’میک اِن انڈیا‘ کے عنوان سے ایک پروگرام بھی شروع کیا جس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا تھا۔ لیکن معیشت کی سست رفتاری کا مطلب یہ ہے کہ متعدد شعبوں میں روزگار کے مواقع بہت کم ہو گئے ہیں۔
بھارت کے ممتاز معاشی ماہر ڈی کے جوشی کہتے ہیں کہ پیداواری شعبے میں جس پیش رفت کا نمونہ ہم چین یا بہت سے دیگر ایشیائی ممالک میں دیکھتے ہیں، وہ ہمیں بھارت میں نظر نہیں آتا۔ ہمیں اُس سطح پر آنے کیلئے بہت محنت کرنا ہو گی۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ معاشی سست روی محض ایک وقتی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں جلد بہتری کے آثار دکھائی دینے لگیں گے۔ لیکن اقتصادی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ آسان نہیں ہو گا اور اس میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
لہذا پشکار سنگھ کی طرف سے ملازمت کے حصول اور دکاندار منو تلوار کی طرف سے مارکٹوں کی رونق دوبالہ ہونے کے خواب جلد پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔