بھارت نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اور امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی اس مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت جاسوسی کے سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے ملک کے دو نام ور صحافیوں سمیت دیگر صحافیوں کو نشانہ بنانے میں ملوث پائی گئی ہے۔
مرکزی وزیرِ مملکت برائے الیکٹرانک اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی راجیو چندر شیکھر نے اس رپورٹ کو ’نصف سچ‘ اور ’مکمل مصنوعی‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جمعرات کو اپنی پوسٹ میں کہا کہ ”یہ رپورٹ تکلیف دہ کہانی ہے اور اس معاملے پر ان کا اور وزارت کا مؤقف واضح ہے۔“
ان کے مطابق ”آئی ٹی کمپنی ’ایپل‘ کو ا س کی تحقیقات کرنی چاہیے کہ کیا اس کی ڈیوائس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے اور اس نے جو نوٹی فکیشن جاری کیا تھا اس کی وجہ کیا تھی۔“
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس رپورٹ سے ہٹ کر ایپل نے 31 اکتوبر کو بعض شخصیات کو جو نوٹی فکیشن جاری کیا تھا اسے حکومت کی زیر ہدایت کسی مخصوص ہیکر سے منسوب نہیں کیا گیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت ایپل سے کہا گیا تھا کہ وہ مشترکہ تحقیقات میں شریک ہو۔ اس سلسلے میں میٹنگ بھی ہوئی تھی اور تحقیقات جاری ہے۔
انھوں نے رپورٹ میں عائد کیے گئے اس الزام کی بھی تردید کی کہ بھارتی حکام نے ایپل پر دباؤ ڈالا ہے کہ اس نے اکتوبر میں اپوزیشن رہنماؤں کو جو سیکیورٹی الرٹ جاری کیا تھا اس کے سیاسی اثرات کو کم کرنے میں مدد دے۔
جاسوسی کیسے ہوئی؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیقاتی رپورٹ میں اکتوبر میں پیش آنے والے اس واقعے کا حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’دی وائر‘ نامی ویب سائٹ کے بانی سدھارت ورداراجن اور کرپشن و منظم جرائم سے متعلق پراجیکٹس پر کام کرنے والے صحافی آنند منگنلے کے آئی فونز میں جاسوسی کے سافٹ ویئر کی مدد سے دونوں کی جاسوسی کی گئی ہے۔
ایمنسٹی کی سیکیورٹی لیب کے سربراہ ڈنچا او سرب ہیل کا کہنا ہے کہ ”ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بھارتی صحافیوں کو کام کے دوران غیر قانونی نگرانی جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ سخت قوانین کے تحت انہیں جیلوں میں ڈالنا، ان کے خلاف منظم مہم چلانا، انہیں ہراساں کرنا یا دھمکیاں دینا وہ ہتھیار ہیں جو صحافیوں کو کام کرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔“
یاد رہے کہ رواں سال کے اکتوبر میں حزبِ اختلاف کے متعدد رہنماؤں نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت ان کے فونز کی مدد سے ان کی جاسوسی کر رہی ہے۔ انھوں نے یہ الزام 'ایپل' کی جانب سے موصول ہونے والی اس وارننگ کے بعد لگایا تھا کہ اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے ان کے فون کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سینئر کانگریس رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور، کانگریس کے جنرل سیکریٹری کے سی وینو گوپال، شیو سینا کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی اور عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان راگھو چڈھا کو ایپل کمپنی کی جانب سے نوٹی فکیشن موصول ہوئے تھے۔ اس وقت سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے کہا تھا کہ ان کے دفتر میں کام کرنے والے متعدد افراد کو بھی کمپنی کی جانب سے نوٹی فکیشن موصول ہوئے ہیں۔
اس وقت بھی راجیو چندر شیکھر کے ساتھ ساتھ حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی جانب سے اس الزام کی تردید کی گئی تھی۔ چندر شیکھر نے تو یہاں تک کہا تھا کہ مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما پیوش گوئل کو بھی نوٹی فکیشن موصول ہوا ہے۔
اس وقت میڈیا اداروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاست دانوں کی جانب سے شدید ردِعمل ظاہر کیا گیا تھا اور متعدد میڈیا اداروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل اور واشنگٹن پوسٹ کی تازہ رپورٹ پر تاحال کسی بھی میڈیا ادارے کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم سینئر صحافی اور پریس کلب آف انڈیا کے سابق صدر اوما کانت لکھیڑہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سے قبل جب پیگاسس سے اپوزیشن رہنماؤں کی جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا تو حکومت نے اس کی تردید کی تھی۔ اس نے پارلیمنٹ کے اندر یا باہر کہیں بھی جاسوسی کا اعتراف نہیں کیا۔
ان کے بقول حکومت کی تردید کے باوجود واشنگٹن پوسٹ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی آزادانہ اور مشترکہ تحقیقات میں اس کا ایک بار پھر انکشاف کیا گیا ہے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔ عوام اس سے واقف ہیں اور میڈیا والوں کو بھی معلوم ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت نے اسرائیلی کمپنی این ایس او سے کروڑوں روپے سے جو سافٹ ویئر خریدے اس کا کچھ تو مصرف ہو گا۔ حکومت اس کا استعمال تو کرے گی۔ وہ اس کی مدد سے نہ صرف صحافیوں کی بلکہ انسانی حقوق کے کارکنوں، اپوزیشن رہنماؤں اور یہاں تک کہ خود بی جے پی کے بعض رہنماؤں کی جاسوسی کر رہی ہے۔
انھوں نے حکومت کے اس قدم کو غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی قرار دیا اور اسے ایک سنگین جرم بتایا۔
ایپل کی جانب سے نوٹی فکیشن جاری کیے جانے پر کانگریس کی ترجمان شمع محمد کا کہنا تھا کہ یہ انکشاف حیران کو اور صدمہ انگیز ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت بیدردی کے ساتھ بھارتی شہریوں کی جاسوسی کر رہی ہے۔
کانگریس کی ایک شاخ ’آل انڈیا پروفیشنلز کانگریس‘ کے چیئرمین پروین چکرورتی نے کہا کہ انھیں اس انکشاف پر کوئی حیرت نہیں ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم اپنی زندگی معمول کے مطابق نہیں گزار سکتے۔
فورم