تیرہ دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمان پر حملے میں مجرم قرار دیے گئے کشمیری باغی محمد افضل گورو کی ساتویں برسی پر اتوار کو وادئ کشمیر میں ایک عام احتجاجی ہڑتال کی گئی جس سے علاقے میں معمولاتِ زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔
گرمائی صدر مقام سری نگر اور وادی کے دوسرے بیشتر علاقوں میں دکانیں بند رہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ سروسز سوائے چند ایک روٹوں کے بند رہیں۔ تاہم سڑکوں پر نجی گاڑیاں اور آٹو رکشا دن بھر دوڑتے نظر آئے۔
سری نگر کی فلیٹ مارکیٹ، جو علاقے میں 'سنڈے مارکیٹ' کے نام سے جانی جاتی ہے، بند رہی۔ وہیں چند علاقوں میں ادویات، دودھ اور روٹی بیچنے والی دکانیں کھلی تھیں۔
حکام نے وادی میں حال ہی میں بحال کی گئی '2 جی' انٹرنیٹ سروسز کو 'حفظِ ماتقدم کے طور پر' دن بھر بند رکھا- سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر وادی میں ریل خدمات بھی معطل رکھی گئیں۔ تاہم سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور بینک اتوار کی سرکاری تعطیل کی وجہ سے بند رہے۔
ہڑتال کےلیے چھ ماہ میں پہلی اپیل
ہڑتال کے لیے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری تنظیموں کے اتحاد حریت کانفرنس (میرواعظ عمر فاروق دھڑے) اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے کی تھی۔
گورو کو دلی کی تہاڑ جیل میں سات سال پہلے آج ہی کے دِن یعنی 9 فروری 2013 کو پھانسی دی گئی تھی۔
حریت کانفرنس (میرواعظ) اور جے کے ایل ایف نے لوگوں سے منگل 11 فروری کو کشمیری قوم پرست لیڈر محمد مقبول بٹ کی برسی پر بھی عام ہڑتال کرنے کے لیے کہا ہے۔
مقبول بٹ کو 11فروری 1984 کو دِلّی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ اُنہیں 1960 کی دہائی کے دوراں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے بومئی سوپور علاقے میں ایک بھارتی انٹیلی جینس آفیسر امر چند کو قتل کرنے کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے ایک مقامی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ عدالت کے جج نیل کنٹھ گنجو کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں 1990 میں مسلح جدوجہد کے آغاز پر ہی جے کے ایل ایف سے وابستہ عسکریت پسندوں نے سری نگر کے ایک بھرے بازار میں گولی مار کر قتل کیا تھا۔
5 اگست 2019 کے بعد جب بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو منسوخ کر کے ریاست کو براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، یہ پہلا موقع ہے جب علیحدگی پسند جماعتوں نے کسی معاملے پر لوگوں سے ہڑتال کرنے کی اپیل کی ہے۔
صحافیوں سے پوچھ گچھ
پولیس نے ہفتے کے روز جے کے ایل ایف کے خلاف ہڑتال کے لیے اپیل جاری کرنے پر سرینگر کے کوٹھی باغ پولیس تھانے میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کی دفعات دس، گیارہ اور تیرہ کے تحت مقدمہ درج کیا۔ اسی روز سری نگر کے دو صحافیوں بھارتی جریدے' آؤٹ لُک' کے نصیر احمد گنائی اور مقامی خبر رساں ایجنسی' کرنٹ نیوز سروس' کے ہارون نبی کو جے کے ایل ایف کے بیان کی تشہیر کرنے پر بلایا اور پھر سری نگر میں اس کے عسکریت مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کے صدر دفاتر پر ان سے پوچھ گچھ کی۔
دونوں کو صحافیوں کے ایک وفد کی انسپکٹر جنرل پولیس وجے کمار کے ساتھ ملاقات کے بعد اپنے اپنے گھر لوٹنے کی اجازت دی گئی۔
کمار نے بتایا کہ ان صحافیوں کو حراست میں نہیں لیا گیا تھا بلکہ ان کی طرف سے جے کے ایل ایف کی ہڑتال کے لیے اپیل کو سوشل میڈیا پر ڈالنے کے لیے ان سے کچھ سوالات پوچھے گیے۔
پولیس افسر نے کہا کہ جے کے ایل ایف ایک کالعدم تنظیم ہے اور یہ کہ کسی بھی ایسے بیان کو مشتہر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس کا مقصد لوگوں کو تشدد پر اکسانا، امن و امان کو بگاڑنا یا عوام کی روزمرہ زندگی میں خلل ڈالنا ہو یا اس سے ایسا ہونے کا احتمال ہو۔
پولیس نے بتایا کہ نصیر گنائی نے جے کے ایل ایف کے بیان کے بارے میں ایک ٹوئٹ کی تھی جب کہ ہارون نبی نے اسے واٹس ایپ کے ذریعے بیسیوں افراد تک پہنچایا تھا۔
مقبول بٹ کو پھانسی کیوں دی گئی؟
مقبول بٹ قوم پرست جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ یا جے کے این ایل ایف کے بانیوں میں شامل تھے جو اب کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک فعال حصہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ یا جے کے ایل ایف کہلاتا ہے جو ماضی میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح جدوجہد میں ہراول دستے کے طور پر سرگرم رہا ہے۔ جے کے ایل ایف آج کل متنازع ریاست کے دونوں حصوں میں سرگرم ہے۔
تنظیم کا منشور کشمیر کی مکمل آزادی ہے۔ یہ گلگت بلتستان سمیت ریاست کے تمام حصوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی حامی جماعت ہے۔
تاہم بھارتی وزارت داخلہ نے مارچ 2019 میں جے کے ایل ایف کے اس دھڑے کی، جس کی قیادت محمد یاسین ملک کر رہے ہیں، ایک غیر قانونی تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ بھارتی حکومت نے جے کے ایل ایف پر لوگوں کو علحیدگی کے لیے اکسانے اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لیے غیر قانونی طور پر رقومات حاصل اور صرف کرنے کا الزام لگایا تھا۔ یاسین ملک بھی غیر قانونی فنڈنگ کے الزام میں گزشتہ تقریباً ایک سال سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔
مقبول بٹ اور افضل گورو، دونوں کو پھانسی دینے کے بعد تہاڑ جیل کے احاطے ہی میں دفنایا گیا تھا۔ سری نگر کے عید گاہ علاقے میں واقع شہداء کے مزار میں پہلی قبر مقبول بٹ کی باقیات کے لئے خالی رکھی گئی ہے۔
مقبول بٹ اور گورو کی باقیات لوٹانے کا مطالبہ
حریت کانفرنس (میرواعظ) نے مقبول بٹ اور افضل گورو کی باقیات کو ان کے خاندانوں کو لوٹا کر انہیں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں عزت و احترام کے ساتھ دفن کرنے کی اجازت دینے کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔
بعض قانونی ماہرین اور سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ افضل گورو کو تختہء دار پر لٹکانے میں نہ صرف جلد بازی سے کام لیا گیا بلکہ اس سلسلے میں قانونی لوازمات کو بھی بالائے طاق رکھا گیا۔ ان کے بقول اس کے پیچھے نئی دہلی میں اُس وقت کی حکومت کے سیاسی مقاصد کار فرما تھے۔
13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمان پر دہشت گرد حملے میں آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور ایک مالی ہلاک اور 13 اہلکاروں سمیت 16 افراد زخمی ہوئے تھے۔
جوابی کارروائی میں پانچ مشتبہ دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے عسکری تنظیم جیش محمد کو حملے کا ذمہ دار ٹہرایا تھا۔ افضل گورو پر حملہ آورں کی اعانت کر کے بھارتی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے اور حملے کی سازش میں شامل ہونے کے الزامات لگائے گئے تھے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گورو کو انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کی طرف سے سنائی گئی موت کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا۔ "جرم کی سنجیدگی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس واقعے (پارلیمنٹ پر حملے) نے جس میں بھاری جانی نقصان ہوا تھا پوری قوم کو ہلا کر رکھدیا تھا اور سوسائٹی کے اجتماعی ضمیر کو صرف مجرم کو سزائے موت دینے سے ہی مطمئن کیا جاسکتا ہے"۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افضل گورو پر چلائے گئے مقدمے کے دوران اپنائے گئے طریقہء کار کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں مناسب قانونی نمائندگی فراہم نہیں کی گئی۔ نیز انہیں رازداری کے ساتھ تختہء دار پر لٹکایا گیا۔