بھارتی مسلح افواج کو لا محدود اختیارات تفویض کرنے کا قانون’ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ شورش زدہ کشمیر سے’ جزوی طور پر‘ ہٹایا جارہا ہے۔اِس بات کا اعلان بھارتی زیر ِانتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے جمعے کے روز کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ’ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ اور ’ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ‘، جو گذشتہ 21برس سے متنازعہ ریاست میں لاگو ہیں، اگلے چند روز کے اندر’ اُن علاقوں سے ہٹائے جائیں گے، جہاں اب امن اور سکون بحال ہوگیا ہے‘۔
اگرچہ، اُنھوں نے ’اُن علاقوں‘ کی نشاندہی نہیں کی، توقع کی جارہی ہے کہ بھارتی مسلح افواج کو مسلمان علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں کی طرف سے چلائی جانے والی تحریک کو کچلنے کے لیے، جِن خصوصی قوانین کے تحت لامحدود اختیارات حاصل ہیں، اُنھیں گرمائی دارالحکومت سری نگر اور سرمائی دارالحکومت جموں کے ساتھ ساتھ سری نگر، گَندربل، بٹگام، جموں، سانبا اور کَٹوا کے اضلاع سے منسوخ کیا جائے گا۔
بعض دوسرے شہری علاقوں سے بھی جو گذشتہ چند برس کے دوران نسبتاً پُر امن رہے ہیں، اُسے ہٹایا جارہا ہے۔
آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کو بھارتی پارلیمنٹ نے ستمبر 1958ء میں منظور کیا تھا اور اُسے فوری طور پر بھارت کی سات شمال مشرقی ریاستوں میں شورش زدہ قرار دیے جانے کے ساتھ ہی نافذ کیا گیا تھا۔
کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت نے جب 1990میں پُرتشدد رُخ اختیار کیا تو آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کا دائرہ متنازعہ بھارتی کشمیر تک بڑھا دیا گیا۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ ساتھ بھارتی کشمیر میں بھی مسلح افواج پر حقوقِ بشر کے کارکنوں اور بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ اِن علاقوں میں مسلسل انسانی حقوق کی پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہیں اور سزا سے بچنے کےلیے اُنھوں نے خصوصی قوانین کا سہارا لیا۔
حکومت کی طرف سے خصوصی قوانین کو جزوی طور پر منسوخ کرنے کے اعلان پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی کشمیر کے سرکردہ آزادی پسند لیڈر میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ کچھ علاقوں یا ضلعوں سے کالے قوانین کے خاتمے کی بجائے اگر پوری ریاست سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کو ہٹایا جائے تو حریت کانفرنس اِس کا خیر مقدم کرے گی۔