|
سرینگر — بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں کے مضافات میں مقیم روہنگیا اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو پانی اور بجلی کی فراہمی روکے جانے کے اقدام نے ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے۔
جموں کی مقامی انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے چند روہنگیا بستیوں کو بجلی اور پانی کی فراہمی منقطع کر دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی شہر کے چھنی ہمت، سنجیواں اور نروال علاقوں میں کرائے پر رہنے والے سینکڑوں روہنگیا خاندانوں کو بھی ان سہولیات سے محروم کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔
تاہم وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے مقامی انتظامیہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر روہنگیا اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو یہ بنیادی سہولیات بحال کا اعلان کیا ہے۔
نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے وزیرِ اعلیٰ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں فوری طور پر مداخلت صرف اس لیے کی کیوں کہ پناہ گزینوں کا تعلق ایک مخصوص مذہبی فرقے سے ہے۔
بی جے پی نے الزام عائد کیا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان روہنگیا اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کو جموں اور کٹھوعہ اضلاع میں پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب واقع علاقوں میں ایک سازش کے تحت بسایا گیا ہے۔
بی جے پی کا اصرار ہے کہ اس 'سازش' کے پیچھے ہندو اکثریتی علاقوں کی آبادی کی شرح کو تبدیل کرنا ہے۔
بی جے پی کے ترجمان اعلیٰ سنیل سیٹھی نے جموں میں نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کے دوراں کہا کہ ان کی پارٹی جموں و کشمیر کے لفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے درخواست کرے گی کہ معاملے کی تحقیقات بھارت کے سب سے بڑے تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سے کرائے۔
واضح رہے جموں و کشمیر میں رواں برس ستمبر۔اکتوبر میں دس سال کے طویل عرصے کے بعد کرائے گئے اسمبلی انتخابات میں علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس اور کانگریس پارٹی اتحاد کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تھی۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اگرچہ عمر عبداللہ کی قیادت میں ایک عوامی منتخب حکومت قائم ہے لیکن جموں و کشمیر بدستور وفاق کا ایک زیرِ انتظام علاقہ ہے، اس لیے طاقت اور اختیارات کا محور نئی دہلی کا مقرر کردہ لیفٹننٹ گورنر ہے۔
'پناہ گزینوں کو بسانے والوں کی نشاندہی کر لی'
سنیل سیٹھی نے کہا "اُن غیر سرکاری تنظیموں کی نشاندہی ہونی چاہیے جو روہنگیا اور بنگلہ دیشی شہریوں کو جموں شہر اور اس کے مضافات میں بسانے کی ذمہ دار ہیں۔
بی جے پی کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ 1990 کی دہائی کے دوراں پناہ گزینوں کو عین اُس وقت بسایا گیا جب جموں و کشمیر میں مسلمان علیحدگی پسندوں نے مسلح تحریک کا آغاز کیا تھا۔ اس لیے یہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے جس کی سی بی آئی سے تحقیقات کرانا ناگزیر ہے۔
دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کا معاملہ سیاسی نہیں بلکہ انسانی ہے۔
سری نگر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ وہ انسان ہیں اور ان کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک ہی کیا جانا چاہیے۔ حکومت ان پناہ گزینوں کو فاقہ کشی پر مجبور کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نا ہی یہ اس بات کی متحمل ہوسکتی ہے کہ وہ ٹھٹھرتی سردی میں جانیں گنوائیں۔
وزیرِ اعلیٰ کے والد اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھی حکومت کے فیصلے کادفاع کیا ہے۔
فاروق عبداللہ کے بقول، "پناہ گزینوں کو ہم نے نہیں حکومتِ ہند نے یہاں لا کر بسایا ہے۔ جب تک وہ یہاں ہیں انہیں پینے کا پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔"
کانگریس پارٹی نے پناہ گزینوں کے ساتھ بین الاقوامی کنونشن کے تحت سلوک کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں پانی اور بجلی کی فراہمی منقطع کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔
کانگریس پارٹی کی جموں و کشمیر شاخ کے صدر طارق حمید قرہ کے مطابق "پناہ گزینوں کے معاملات سے نمٹنے کے لیے واضح بین الاقوامی اصول اور ہدایات موجود ہیں۔ روہنگیا اور بنگلہ دیش کے ان پناہ گزینوں کے ساتھ انٹرنیشنل کنونشن کے تحت سلوک کیا جانا چاہیے۔'
اس تنازع کے درمیان بدھ کو اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے دو عہدیداروں نے جموں کے مضافاتی علاقے کرانی تالاب میں واقع ایک کچی بستی کا دورہ کیا اور روہنگیا مسلمانوں سے ملاقات کر کے ان کی مشکلات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
پناہ گزینوں نے کمیشن کے عہدیداروں کو بتایا کہ مقامی انتظامیہ نے ان کے بجلی اور پانی کے کنکشن اس امر کے باجود کاٹے تھے کہ وہ یو این ایچ سی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔
واضح رہے بھارت نے 1951 کے یونائیٹڈ نیشنز ریفیوجی کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں اور وہ روہنگیوں کو غیر قانونی تارکینِ وطن سمجھتا ہے۔
جموں کے مقامی عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسی چار غیر سرکاری تنظیموں کی نشاندہی کرلی ہے جنہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں و کشمیر میں بسنے میں مدد دی ہے۔
عہدیداروں کے مطابق تحقیقات کے دوراں پتا چلا ہے کہ میانمار کے 158 شہریوں نے بھارت کا شناختی کارڈ آدھار حاصل کرلیا ہے جب کہ آٹھ کو جموں میں سرکاری راشن کارڈ حاصل کرنے میں بھی کامیابی ملی ہے اور یہ دستاویزات انہیں جموں و کشمیر میں مستقل طور پر بسنے میں مدد گار ثابت ہوئی ہیں۔
مارچ 2021 میں بھارتی کشمیر میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی کل تعداد 13ہزار 700 تھی۔ ان کے علاوہ کئی سو بنگلہ دیشی شہریوں نے بھی علاقے میں پناہ لے رکھی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ 2008 اور 2016 کے درمیان سب سے زیادہ یعنی چھ ہزار روہنگیا اور بنگلہ دیشی شہری جموں و کشمیر میں آکر بسے ہیں۔
جموں پولیس کی جانب سے مبینہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد اور مقامی ہندو تنظیموں اور رجعت پسند حلقوں کے بڑھتے دباؤ کی وجہ سے لگ بھگ چار برس کے دوران تین ہزار سے زائد پناہ گزین بھارت کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں یا انہوں نے دوسرے ممالک میں پناہ لے لی ہے۔
حکام نے تقریباً 250 روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دے کر ملک بدر کر کے واپس میانمار بھیج دیا ہے۔
فورم