رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں پناہ گزین روہنگیا مسلمان؛ 'پہلے یہاں سکھ تھا اب مشکلات بڑھ رہی ہیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

"میں میرے والدین اور بھائی بہن نے بڑے مصائب جھیلے ہیں۔ میانمار میں ہماری زندگی جہنم تھی۔ ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہم بھاگ کر بھارت آ گیے تھے اور پھر یہ سوچ کر کہ جموں و کشمیر ایک مسلم علاقہ ہے ہم یہاں آ گئے۔ لیکن جموں کے قریب واقع ایک پسماندہ بستی میں رہنے کے دوراں بھی ہمیں کئی طرح کے مسائل کا سامنا تھا، جب میری شادی یہاں پونچھ میں ہوئی تو مجھے کچھ سکھ ملا، لیکن اب زندگی پھر مشکل ہو گئی ہے۔"

یہ کہنا ہے پونچھ کے ایک شہری کے ساتھ بیاہی گئی روہنگیا خاتون نصرت بیگم (نام تبدیل کیا گیا ہے) جنہیں پولیس نے کچھ عرصہ پہلے گرفتار کیا تھا۔ لیکن ایک مقامی عدالت سے ضمانت ملنے پر وہ رہا ہوئی ہیں۔

نصرت بیگم کی طرح بھارتی کشمیر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کا گلہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے جاری کریک ڈاؤن کی وجہ سے اُن کا مستقبل یہاں بھی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ بھارتی ادارے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جنہوں نے مقامی مرد و خواتین سے شادیاں کیں اور پھر دستاویزات حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی راستے اختیار کیے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیش کے تارکینِ وطن کو شناختی دستاویزات بنوانے میں مدد دینے کے الزام میں پیر کو 40 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ حراست میں لیے گئے افراد میں ایک سرکاری ملازم بھی شامل ہے۔

پولیس نے علاقے کے مختلف اضلاع میں ڈالے گیے چھاپوں کے دوراں ایسی نصف درجن خواتین کو بھی اُن کے شوہروں سمیت گرفتار کر لیا ہے جن پر حکام کا الزام ہے کہ انہوں نے مقامی افراد سے شادیوں کے لیے غیر قانونی راستہ اختیار کیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک روہنگیا خواتین کی طرف سے مقامی مردوں کے ساتھ شادی کے 16 معاملے سامنے آئے ہیں جب کہ کم از کم دو مقامی خواتین غیر ملکی تارکینِ وطن مردوں کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھ گئیں۔

بھارتی کشمیر کے ایک ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا کہ "ایک بھارتی شہری کا کسی غیر ملکی باشندے کے ساتھ شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے لیکن جن معاملات کی پولیس تحقیقات کر رہی ہے ان میں قانون کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے۔"

حکام کا کہنا ہے کہ نہ صرف میانمار اور بنگلہ دیش کے ان تارکینِ وطن بلکہ اُن مقامی افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے جنہوں نے انہیں دستاویزات بنانے میں مدد دی۔

ان دستاویزات میں آدھار کارڈ، پان کارڈ (انکم ٹیکس محکمے کی طرف سے اجرا کیا جانے والا پرمننٹ اکاؤنٹ نمبر کارڈ)، ووٹر کارڈ بھی شامل تھا۔ یہاں تک کہ تقریباً چار برس پہلے جموں و کشمیر میں نافذ کیے گئے نئے اقامتی قانون کے تحت جاری کی جانے والی سندیں بھی شامل ہیں۔

بھارتی حکومت نے اپریل 2020 میں یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کے لیے ایک نیا قانونِ اقامت تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت غیر مقامی افراد کو بھی ریاست کا مستقل شہری ہونے کی سندیں جاری کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

جموں میں ڈویژنل کمشنر کے دفتر کے ایک ترجمان نے بتایا کہ "اس طرح کا غیر قانونی رویہ ناقابلِ برداشت ہے۔ پولیس سے کہا گیا ہے کہ ہر ایسے شخص کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر درج کر لی جائے جس کے بارے میں پتا چلے کہ اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر عدالت سے مجرم کو سخت سے سخت سنانے کی درخواست کی جائے گی۔"

پولیس نے رواں ہفتے کے پہلے چار روز کے دوراں کشتوار، ڈوڈہ، پونچھ، راجوری اور جموں اضلاع میں ڈالے گئے چھاپوں کے دوران 13 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان اضلاع اور جموں و کشمیر کے چند دوسرے مقامات سے 40 سے زائد افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے روہنگیا اور بنگلہ دیشی مہاجرین کی بھارتی شناختی دستاویزات حاصل کرنے میں مبینہ طور پر مدد کی تھی۔

پولیس نے ان چھاپوں کے دوراں ایسی شناختی دستاویزات کے علاوہ کئی بینک پاس بک ضبط کی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ غیر ملکی تارکینِ وطن نے بینکوں میں کھاتے کھلوانے کے لیے انہیں غیر قانونی طور پر جاری کیے گیے پان کارڈ کا استعمال کیا تھا۔

ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار آنند جین نے بتایا کہ سات جوڑوں اور 40 سے زائد دیگر افراد کے خلاف مختلف پولیس تھانوں میں 11 ایف آئی آرز درج کر لی گئی ہیں۔

انہوں نے جموں میں نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ "چند عناصر کے روہنگیا باشندوں کو جموں و کشمیر میں آباد ہونے میں مدد دینے کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے کیوں کہ ان کی یہ حرکت قومی سلامتی کے لیے خطرات کا موجب بن سکتی ہے۔"

'معاملے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیکھا جائے'

ملزمان کے رشتے داروں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس معاملے سے قانونی طور پر نمٹنے کے بجائے اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حل کیا جائے گا۔

نصرت بیگم کہتی ہیں کہ انہیں ایک طویل عرصے تک بڑے مصائب و آلام جھیلنے کے بعد ملی خوشیوں پر اب پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔

انہوں نے کہا "مجھے معلوم نہیں تھاکہ میرے پاس جو دستاویزات ہیں میں انہیں حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی اور میں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔"

نصرت اور ان کے اہلِ خانہ چاہتے ہیں کہ اس معاملے کو قانون کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حل کیا جائے۔

مارچ 2021 میں بھارتی کشمیر میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی کل تعداد 20 ہزار کے قریب تھی لیکن مبینہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن اور مقامی ہندو تنظیموں کے اعتراضات کے باعث تین ہزار سے زائد پناہ گزین بھارت کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں یا کسی دوسرے ملک میں پناہ لے چکے ہیں۔

حکام نے ڈھائی سو کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دے کر ملک بدر کر کے واپس میانمار بھیج دیا ہے۔

بھارتی کشمیر میں روہنگیا پناہ گزین خوف وہراس کا شکار
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:20 0:00

انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش

انسانی حقوق تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں نے جموں و کشمیر میں رہ رہے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اس کارروائی کو غیر انسانی اقدام قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد میانمار میں فوج، سابقہ حکومت اور قوم پرست بودھوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے ملک سے فرار ہو کر بھارت اور دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

سن 2017 میں میانمار میں امتیازی سلوک اور تشدد سے بچنے کے لیے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ہمسایہ ممالک کا رُخ کیا تھا۔ بھارت میں 50 ہزار سے زائد روہنگیا پناہ گزین مغربی بنگال، بہار، جموں و کشمیر اور بعض دوسری ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔

تاہم بھارت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 2020 کے اواخر میں ان پناہ گزینوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی تھی جس کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد گھبرا کر فرار ہونے لگی تھی یا ان میں سے کئی روپوش ہو گئے تھے۔

بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی ( این آئی اے) نے حال ہی میں تری پورہ، آسام، مغربی بنگال، کرناٹک، تامل ناڈو، تلنگانہ، ہریانہ اور راجستھان ریاستوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں جموں کشمیر اور پوڈیچری (پانڈی چری) میں 55 مقامات پر چھاپے مارے تھے اور مبینہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث کئی افراد کو حراست میں لیا تھا۔

بی جے پی اور مقامی ہندو تنظیموں کے خدشات

جموں و کشمیر انتظامیہ کو نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مقامی لیڈر شپ اور کچھ دوسرے ہم خیال سیاسی گروہوں اور مقامی میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کی ملک بدری کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ ہنوز جاری ہے۔

ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں روہنگیا اور بنگلہ دیشی شہریوں کو بسانا ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی آبادیات کو تبدیل کرنا ہے۔ نیز ایک حساس سرحدی ریاست میں ان کی موجودگی بھارت کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ پیدا کرتی ہے۔

بی جے پی کی جموں و کشمیر شاخ کے صدر رویندر رینہ کہتے ہیں کہ "ہم پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں اور آج یہ بات دہرانا چاہتے ہیں کہ مفادِ خصوصی رکھنے والے اور قوم دشمن عناصر ان روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کو بھارت کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔"

بی جے پی نے روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکینِ وطن اور انہیں بھارت کے شہری شناختی دستاویزات حاصل کرنے میں مدد دینے والوں کے خلاف پولیس کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کا خیر مقدم کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG