رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں 13 مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت، پاکستان کی مذمت


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب 13 مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔

منگل کو پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی روز میں 13 کشمیریوں کی ہلاکت بھارت کے ظلم و ستم کی عکاسی ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بھارتی سیکیورٹی فورسز کے جعلی مقابلوں میں نوجوان کشمیریوں کی ہلاکت پر تشویش ہے۔ ایک جانب دنیا عالمی وبا کرونا سے نبرد آزما ہے لیکن بھارتی سیکیورٹی فورسز کشمیری عوام پر ظلم و ستم میں اضافہ کر رہی ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو کشمیر میں بھارت کے انسانیت کے خلاف جرائم پر فوری نوٹس لینا چاہیے۔

بھارتی فوج نے پیر کو دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کنٹرول لائن کے نوشہرہ اور مینڈھر سیکٹروں میں الگ الگ جھڑپوں کے دوران 13 مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی (فائل فوٹو)
پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی (فائل فوٹو)

جموں میں بھارتی فوج کے عہدے داروں نے بتایا تھا کہ ہلاک کیے گئے افراد ان کے بقول 'دہشت گرد' تھے جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے بھارتی کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ"اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتے تو ظاہر ہے کہ وہ دہشت گردی اور تخریبی کارروائیاں کرتے۔"

عہدے داروں کے مطابق مصدقہ اطلاع پر بھارتی فوج نے 28 مئی کو پونچھ اور راجوری اضلاع کے سرحدی علاقوں میں بڑے پیمانے پر 'در اندازی مخالف آپریشنز' کا آغاز کیا۔ اس دوران مینڈھر سیکٹر میں دس اور نوشہرہ سیکٹر میں تین دراندازوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بھارتی فوج کے ان دعووں کی تاحال آزاد ذرائع نے تصدیق نہیں کی ہے۔ پیر کو کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان دعووں پر شک و شبہے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لداخ میں بھارتی فوج اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے درمیان پچھلے چند ہفتوں سے جاری محاذ آرائی سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسا کیا گیا۔

بھارتی فوج کے افسران کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن کے نوشہرہ اور مینڈھر سیکٹروں میں پیش آئی جھڑپوں کے ساتھ ہی ضلع پونچھ اور ضلع راجوری کے کئی سرحدی علاقوں میں تلاشی کا عمل جاری ہے۔

اس دوران بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے ڈائریکٹر جنرل ایس ایس دیسوال نے جموں کے علاقے میں پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کا دو روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے۔

جموں میں بی ایس ایف کے ایک ترجمان نے بتایا کہ دورے میں دیسوال کو "موجودہ حفاظتی منظر نامے میں جموں سرحد کے نظام کی پیچیدگیوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔"

بی ایس ایف جموں خطے سے گزرنے والی بھارت پاکستان سرحد کے 198 کلو میٹر حصے کا دفاع کرتا ہے۔ یہ بھارت میں 'انٹرنیشنل بارڈر 'یا بین الاقوامی سرحد، لیکن پاکستان میں 'ورکنگ باؤنڈری' کہلاتی ہے۔

سرحد کے اس حصے پر بی ایس ایف اور پاکستان رینجرز کے درمیان اکثر اسی طرح محاذ آرائی دیکھنے میں آتی ہے جس طرح بھارت اور پاکستان کی افواج 745 کلو میٹر لمبی کنٹرول لائن پر 2003 کے فائربندی کے معاہدے کے باوجود اکثر فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

ادھر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کنٹرول لائن کے کرناہ علاقے میں، جو ضلع کپوارہ میں ہے۔ سرحد پار سے بھیجی گئی اشیا ضبط کی ہیں جن میں دس دستی بم، اے کے بندوق کے دو سو راؤنڈ اور چار وائر لیس سیٹ شامل ہیں۔

سرینگر میں پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے کرناہ علاقے کے امروہی نامی گاؤں کے شہری محمد حفیظ رینہ کو، جس کے ذریعے یہ قابل اعتراض سامان نامعلوم عسکری تنظیم تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی، گرفتار کیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG