چین اور بھارت کے سرحدی تنازع اور جھڑپوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی لفظی نوک جھونک شروع ہو گئی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت ہمسائیہ ملکوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ پاکستان نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف 'فالس فلیگ آپریشن' بھی کر سکتا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق فالس فلیگ آپریشن میں کوئی بھی ملک دہشت گردی کے کسی واقعے کا الزام لگا کر اپنے دفاع میں دوسرے ملک کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز مہیا کرتا ہے۔
البتہ بھارت ماضی میں پاکستان کی جانب سے لگائے جانے والے اس نوعیت کے الزامات کو مسترد کر رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے خود دہشت گردی کا کوئی واقعہ کرا کر پاکستان پر الزام تھوپنا چاہتا ہے۔ تاکہ اسے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز مل سکے۔
البتہ بھارت کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں پرتشدد واقعات میں ملوث رہا ہے۔ لہذٰا اسے دہشت گردوں کی پشت پناہی چھوڑنا ہو گی۔
لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی تشویش انٹیلی جنس معلومات پر مبنی ہو سکتی ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ عالمی برادری جنوبی ایشیا کے دو حریف جوہری ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ورنہ صورتِ حال خراب ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت کے بھارت کے طرف سے کسی'فالس فلیگ آپریشن' سے متعلق خدشات کی بنیاد انٹیلی جنس معلومات پر مبنی ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اندر ایک حلقہ ایسا ہے جو پاکستان کے خلاف سخت موقف رکھتا ہے اور وہ پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
حسن عسکری کے بقول ان خدشات کی وجہ سے پاکستان یہ چاہتا ہے کہ بین الاقومی برداری پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
اُن کے بقول اگر بھارت پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو پاکستان پھر عالمی برادری کو یہ باور کرائے گا کہ وہ تو پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کر رہا تھا۔
ان کے بقول بھارت کی طرف سے کسی بھی پاکستان مخالف کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن کیا ایسا حتمی طور پر ہو گا اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ اگرچہ عمران خان گزشتہ سال بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے معاملے کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔ لیکن دنیا فی الحال کرونا وبا سے لڑ رہی ہے۔ لہذٰا پاکستان اور بھارت کشیدگی کا معاملہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور فوری طور پر اُن کے لیے یہ مسئلہ تشویش کا باعث نہیں ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے بھارتی اقدامات کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھی ہے۔ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بھی تناؤ کا شکار ہیں۔
ظفر جسپال کے بقول عمران خان مودی حکومت کو جرمنی کی نازی پارٹی سے اس لیے منسلک کرتے ہیں کیوں کہ اس جماعت کی قیادت نے بھی اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی محاذ کھولے تھے۔
لہذٰا بھارت اپنی خراب معاشی صورتِ حال سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے۔
بھارت کے بعض حلقوں کا موقف ہے کہ نئی دہلی کا پاکستان کے خلاف کسی کارروائی کا فی الوقت کوئی امکان نہیں ہے۔
ظفر جسپال کے بقول پاکستان کی پالیسی اس وقت دفاعی نوعیت کی ہے۔ اگر بھارت نے کوئی مہم جوئی کی تو بھی پاکستان صرف اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کرے گا۔ جیسا کے پاکستان نے پلوامہ حملے کے بعد لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی علاقے میں فضائی کارروائی کی تھی۔
تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔ جو کسی بھی غیر معمولی واقع کی وجہ سے انتہائی کشیدہ ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کے بقول بین الاقوامی برادری کی مداخٰلت سے صورتِ حال جنگ کی طرف جاتی دکھائی نہیں دیتی۔
تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا کہ وزیر اعطم عمران خان دنیا کو یہ باور کراتے رہے ہیں کہ عالمی برادری دونوں ملکوں کے درمیان صورتِ حال خراب ہونے سے پہلے مداخلت کرے۔ کیوں کہ دو جوہری طاقتوں کی درمیان جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی تو اسے روکنا آسان نہیں ہو گا۔
یاد رہے کہ پاکستان نے بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کا خدشہ ایسے وقت میں ظاہر کیا ہے جب لداخ پر چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کی کشیدگی ایک محدود سطح کی ہے اور پاکستان اس سے کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
تجزیہ کاروں کے بقول بھارت کی طرف سے چین سے کشیدگی بڑھانے کا تعلق عالمی سیاست سے ہے۔ نئی دہلی چین کے خلاف تناؤ بڑھا کر امریکہ کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
البتہ بھارت کا یہ موقف ہے کہ لداخ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔