یوسف جمیل
بھارتی فوج کی سکھ رجمنٹ کا پہلا قافلہ 27 اکتوبر 1947 کو ہوائی جہازوں کے ذریعے سرینگر میں اُتارا گیا تھا۔ اِس سے ایک دن پہلے کشمیر کے مطلق العنان ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ نے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے تھے اور ریاست کے بعض حصوں میں مسلمانوں کی طرف سے کی گئی بغاوت اورپاکستانی قبائلی علاقوں کی مِلیشیا یا رضا کاروں کے حملے روکنے کے لئے نئی دہلی سے فوجی مدد مانگی تھی ۔
بھارتی فوج کی آمد کے ساتھ ہی ریاست کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے پہلی کشمیر جنگ کا آغاز ہوا جو اس کی تقسیم پر منتج ہوا۔
جمعہ کو بھارتی فوج کی آمد کی سالگرہ پر مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی۔
یومِ سیاہ منانے کے لئے ہڑتال کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں نے کی تھی جن کا کہنا ہے کہ ایک غیر مقبول اور استبدادی ہندو مہاراجہ کے پاس مسلم اکثریتی ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی حق نہیں تھا اور نہ یہ اُن اصولوں کی پاسداری کے تحت کیا گیا جنہیں تقسیم ہند کے پیمانےکے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
گذشتہ سات دہائیوں کے دوران بھارت اور پاکستان نے کشمیر پر کم سے کم تین جنگیں لڑی ہیں۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقامی نوجوانوں نے 1989 میں بندوق اُٹھا کر بھارت کے خلاف بغا وت کا آغاز کیا ۔ شورش کے دوران اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ بھارت پاکستان پر شورش کے لئے شہ دینے اور عسکریت پسندوں کو مدد فراہم کرنے کا الزام لگاتا ہے جس کی پاکستان سختی کے ساتھ ترديد کرتا ہے۔
جمعے کے روز دارالحکومت سرینگر کے حساس علاقوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے کرفیو جیسی پابندیاں عائد کیں اور شہر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
عوامی مظاہروں اور تشدد کے خدشے کے پیشِ نظر وادئ کشمیر کے باقی حصوں میں بھی غیر معمولی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے جبکہ اس سے پہلے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو اُن کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا یا انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔
تاہم سرینگر کے بعض علاقوں میں دوپہر کے بعد سڑکوں پر نوجوانوں کی ٹولیوں کی پولیس اور نیم فوجی اہل کاروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں ۔ جس دوران سیکیورٹی دستوں نے انہیں منشتر کرنے کے لیے اشک آور گیس اور لاٹھیوں کا استعمال کیا ۔ جب کہ ہجوم کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا ۔ کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
آزادی پسند لیڈروں کے ایک اتحاد نے سرینگر میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت 70 سال پہلے آج ہی کے دِن کسی آئینی یا اخلاقی جواز کے بغیر کشمیر پر قابض ہوا تھا ۔ اس وقت سے بھارتی مسلح افواج معصوم اور نہتے کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کر رہی ہیں ان کی املاک کو تباہ کیا جا رہا ہے اور خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس موقع پر پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نےکہاکہ " یہ دن ایک بڑے سنگین انسانی المیہ کی یاد تازہ کرتا ہے جب 70 سال پہلے معصوم کشمیریوں پر قبضہ جمانے، انہیں غلام بنانے، ان پر ظلم و ستم ڈھانے اور انہیں دہشت زدہ کرنے کے لئے بھارتی فوج سرینگر میں وارد ہوئی تھی"۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ" بے کس کشمیریوں کو خاموش کرنے اور اُن کی جائز جدوجہد کو دبانے کے لئے اُن کے خلاف بد ترین قسم کی سرکاری دہشت گردی کا ارتکاب کیا جارہا ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسان دوست قوانین اور ضوابط کی صریحا" خلاف ورزی ہے۔"-
پاکستان کے صدر ممنون حسین نے بھارت پر زور دیا کہ وہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے کیونکہ اُن کے بقول پورے خطے میں پائیدار امن کے قیام اوراس کی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ریاست کے دیرینہ تنازعے کو حل کرنا ناگزیر ہے-
لیکن بھارت نے پاکستانی وزیرِ اعظم کے ان الزامات کی سختی کے ساتھ ترديد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل اسلام آباد دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے کے اپنے جرم کو چھپانے کے لئے اس طرح کے بے بنیاد بیانات دے رہا ہے۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی سالگرہ پر جموںمیں جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے، جشن منایا ۔ اس موقع پر پارٹی کے ایک سرکردہ لیڈر اور بھارتی وزیرِ اعظم کے دفتر میں وزیرِ مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ اگر کشمیر پر کوئی تنازعہ ہے تو وہ اس کے ایک حصے پر پاکستان کے غیر قانونی اور ناجائز قبضے کو ختم کرکے اسے آزاد کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ۔" ہم کسی کو بد نیتی پر مبنی مہم کو چلا کر کشمیر پر ہماری جماعت کے اصولی موقف کو بدلنے کی اجازت نہیں دیں گے"۔
بھارتی فوج نے کشمیر میں اپنی آمد کی سالگرہ کو انفنٹری ڈے کے طور پر منایا۔ اس سلسلے میں جمعے کے روز کئی مقامات پر خصوصي تقربیات کا اہتمام کیا گیا۔