رسائی کے لنکس

بھارتی وزیرِ داخلہ کی کشمیر کے 'اسٹیک ہولڈرز' کے ساتھ بات چیت


وزیرِ داخلہ نے سرینگر میں وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی، مختلف بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے قائدین یا نمائندوں، سماجی اور تاجر انجموں اور بعض سول سوسائٹی کارکنوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔

بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ سنیچر کو شورش زدہ کشمیر کے چار روزہ دورے پر سری نگر پہنچے۔ وہ یہ دورہ ایک ایسے موقعے پر کر رہے ہیں جب بھارت میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور ہم خیال سول سوسائٹی گروپس اور با اثر افراد کی طرف سے ملک کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست کو حاصل خصوصی اختیارات ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

وہ آئینِ ہند کی ایک اور شق، دفعہ 35 اے کو بھی منسوخ کرانے پر بضد ہیں جس کے تحت ریاست کے قدیم باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لئے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون ساز اسمبلی کو حاصل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دفعہ 35 اے منسوخ کی جاتی ہے تو اس سے ریاست میں 1927 سے نافذ وہ قانون متاثر ہوگا جس کے تحت صرف اس کے پشتوں سے آباد باشندے ریاست میں غیر منقولہ جائیداد خرید اور بیچ سکتے ہیں اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

اس وقت بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 35اے کو ہٹانے کے لئے ایک عرضی زیرِ سماعت ہے اور اس پر اگلی سماعت دیوالی تہوار کی چھٹیوں کے بعد ہوگی۔

عدالتِ اعظمٰی میں یہ عرضی قدامت پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی پشت پناہی میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'وی، دی سٹیزنز' نے دائر کی ہے اور کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ عدالت اس آئینی ضمانت کو منسوخ کر سکتی ہے۔ عدالت میں دفعہ 370 کے خلاف بھی ایک عرضداشت زیرِ سماعت ہے۔

کشمیری جماعتوں کا، جن میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں بھی شامل ہیں، استدال ہے کہ دفعہ 35اے کو منسوخ کرانے کے مطالبے کے پیچھے مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیات کو تبدیل کرنے کے لئے راہ ہموار کرنے کی سوچ کار فرما ہے۔ ان کا الزام ہے کہ بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) جو ہندوتو سیاست کا ایک حصہ ہے مہم چلانے والوں کی پشت پناہی اور اعانت کر رہی ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ ریاست کے بھارت میں مکمل انضمام کے حق میں تو ہے، لیکن وہ چونکہ ریاست کی مخلوط حکومت کا ایک حصہ ہے اس لئے حلیف جماعت، علاقائی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے کا لحاظ کرتے ہوئے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے اپنے مطالبے پر فی الحال زور نہیں دے رہی ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں اور ہم خیال سماجی، مذہبی اور تاجر انجمنوں اور سول سوسائٹی گروپس نے خبر دار کیا ہے کہ اگر دفعہ 35 اے میں تبدیلی لائی گئی تو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہونے کا خدشہ ہے، جس پر، اُن کے بقول، ''قابو پانا حکومت کے لئے ممکن نہ ہوگا''۔


اس پسِ منظر میں بھارتی وزیرِ داخلہ نے سرینگر میں وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی، مختلف بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے قائدین یا نمائندوں، سماجی اور تاجر انجموں اور بعض سول سوسائٹی کارکنوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ تاہم، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں اور ان کے لیڈر اور ہم خیال تاجر، وکلاء اور سول سوسائٹی گروپس اس سرگرمی کا حصہ نہیں ہیں۔

سرینگر کے لئے روانگی سے پہلے بھارتی وزیرِ داخلہ نے نئی دہلی میں بتایا تھا کہ وہ کشمیر ''کھلے ذہن کے ساتھ'' جارہے ہیں، کیونکہ حکومت کشمیر میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں، ''تاکہ ریاست میں درپیش مسئلے کو پُرامن طور پر حل کیا جاسکے''۔

انہوں نے کہا تھا، اُن کے اپنے الفاظ میں: "میں کھلے ذہن کے ساتھ جارہا ہوں۔ میں ذاتی طور پر چاہتا ہوں کہ ہر ایک سے بات کرلی جائے۔ جو بھی مجھ سے ملنے آئے گا، میں اُس سے بات کر لوں گا۔"

عہدیداروں نے بتایا کہ وزیرِ داخلہ نے ریاست میں پائی جانے والی حفاظتی صورتِ حال، حد بندی لائین پر پیش آنے والی مبینہ در اندازی اور فائرنگ کے واقعات اور ریاست کے اندر وفاق کی مالی اعانت سے جاری ترقیاتی پروجکٹس پر افسران اور دوسرے متعلقین کے ساتھ منعقدہ الگ الگ اجلاسوں میں جائزہ لیا اور یہ سلسلہ اگلے تین دن تک جاری رہے گا۔

حفاظتی دستوں نے سنیچر کو لگاتار دوسرے دن بھی سرینگر کے کئی علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کیں۔

جس جگہ راج ناتھ سنگھ قیام کر رہے ہے اُس کے ارد گرد کے تین مربع کلو میٹر علاقے کی گزشتہ رات ہی ناکہ بندی کردی گئی تھی۔ سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق اور قوم پرست جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک کو پولیس نےجمعرات کی شام پھر حراست میں لے لیا تھا-

دونوں نے سرکردہ آزادی پسند راہنما سید علی شاہ گیلانی، جو خود کئی ماہ سے سرینگر میں اپنے گھر میں نظر بند ہیں، کے ہمراہ دہلی جا کر بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے صدر دفاتر پر خود کو گرفتاری کے لئے پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔

این آئی اے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں تشدد اور دہشت کو بڑھاوا دینے اور بدامنی کو جاری رکھنے کےلئے پاکستان اور دوسرے ممالک سے مبینہ طور پر حوالہ یا غیر قانونی چینلز کے ذریعے حاصل کی جانے والی رقوم کے معاملے میں تحقیقات کر رہی ہے۔ اس نے اس سلسلے میں جون کے مہینے میں باضابطہ مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد وادی کشمیر، جموں، نئی دہلی اور بھارتی ریاست ہریانہ کے مختلف علاقوں میں اس کی طرف سے چھاپے مارنے اور گرفتاریاں عمل میں لانے کا سلسلہ جاری ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG