رسائی کے لنکس

کشمیری پنڈتوں کا مبینہ قتل عام، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایمنسٹی کی مایوسی


بھارتی سیکیورٹی فورس کے اہل کار سری نگر میں کرفیو کے دوران پہرہ دے رہے ہیں۔ فائل فوٹو
بھارتی سیکیورٹی فورس کے اہل کار سری نگر میں کرفیو کے دوران پہرہ دے رہے ہیں۔ فائل فوٹو

سرکاری اعداد وشمار میں کہا گیا ہے کہ شورش زدہ ریاست میں مارچ 1989 اور 31 دسمبر 1990 کے درمیان صرف 129 پنڈتوں کا قتل ہوا اور شورش کے آغاز سے اب تک عسکریت پسندوں اور نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں مارے گئے ہندوؤں کی کل تعداد 219 ہے۔

یوسف جمیل

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں 27 سال پہلے شورش کے آغاز پر کشمیری ہندو پنڈتوں کی ہلاکتوں سے متعلق مقدموں کی از سر نو تحقیقات کرانے سے انکار پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ انصاف اور احتساب کے لئے ایک شدید دھچکا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے جمعہ کو وادئ کشمیر میں 1989-90 کے دوران کشمیری پنڈتوں کی ہلاکتوں سے متعلق 215 کیسوں کی از سر نو تحقیقات کرانے سے متعلق ایک مفاد عامہ کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا تھا کہ 27 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس بارے میں ثبوت اور شواہد اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے۔ جب کہ'روٹس ان کشمیر' نامی کشمیری پنڈتوں کی ایک تنظیم کا، جس نے یہ درخواست دائر کی تھی، استدلال تھا کہ اس عرصے کے دوران کشمیر میں شورش عروج پر تھی اور اس کے بقول سات سو سے زیادہ پنڈتوں کو عسکریت پسندوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا- اس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ تشدد اور خوف و ہراس کی اس صورتِ حال کی وجہ سے اقلیتی فرقے کی اکثریت کو گھر بار چھوڑ کر جموں، دِلی اور بھارت کے دوسرے علاقوں کی طرف بھاگنا پڑا تھا لہٰذا وہ ان ہلاکتوں سے متعلق تحقیقات میں شامل نہیں ہوسکے۔

لیکن عدالتِ عظمیٰ نے اس دلیل کو مسترد کردیا اور کہا کہ 27 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد اب قتل، آتشزنی اور لوٹ مار کے مبینہ واقعات،جن کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں کو نقلِ مکانی کرنا پڑا تھی ، کے ثبوت اکٹھے کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ عدالت نے درخواست گذار کے وکیل وکاس پڈورہ سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ "27 سال تک آپ کہاں تھے۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ثبوت آئیں گے تو کہاں سے؟"

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عدالت کے اس فیصلے کو مایوس کُن قرار دیدیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی پرگرامز ڈائریکٹر اسمیتا باسو نے کہا کہ غیر قانونی قتال سے متعلق تمام الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیئے۔ اُن کے اپنے الفاظ میں "سپریم کورٹ کا فیصلہ کشمیر میں انصاف اور احتساب کے لئے ایک دھچکا ہے۔ تمام ایسے الزامات کی آزاد سیویلین حکام کی طرف سے تحقیقات ہونی چاہیئے جن میں غیر قانونی قتال کی بات کہی گئی ہو اور قصور وار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیئے"۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سال جولائی میں عدالتِ عظمیٰ نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں 1979 میں ہلاکتوں کے 80 معاملات کی چھان بین کرانے کی ہدایت دی تھی اور یہی اصول انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کے سلسلے میں بھی اپنایا جانا چاہئے۔

سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی مفاد عامہ کی درخواست میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے بعض موجودہ قائدین، جن میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے موجودہ چیرمین محمد یاسین ملک جو اُس وقت ایک عسکری کمانڈر تھے اور اُن کے ایک ساتھی فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے بھی شامل ہیں ، جن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس سے ہدف بنائے گئے افراد کے لواحقین اور عام کشمیری پنڈتوں میں انصاف کا احساس پیدا ہو گا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 1989-90 میں سات سو سے زیادہ کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا گیا تھا۔

لیکن سرکاری اعداد وشمار میں کہا گیا ہے کہ شورش زدہ ریاست میں مارچ 1989 اور 31 دسمبر 1990 کے درمیان صرف 129 پنڈتوں کا قتل ہوا اور شورش کے آغاز سے اب تک عسکریت پسندوں اور نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں مارے گئے ہندوؤں کی کل تعداد 219 ہے۔

تاہم کشمیر میں موجود پنڈتوں کی ایک تنظیم کشمیری پنڈت سنگرش سمِتی کے صدر سنجے کمار تِکو نے ان اعداد وشمار کو رد کرتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے ایسے 403 ہندوؤں کے ناموں کی فہرست جاری کی گئی تھی جنہیں اُن کے مطابق عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG