بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے 19 ماہ سے گھر تک محدود علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق کی نظر بندی ختم کر دی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے میر واعظ عمر فاروق نے نظر بندی کے خاتمے کی تصدیق کی ہے۔
میر واعظ عمر فاروق اُن سینکڑوں کشمیری سیاست دانوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور تاجروں میں شامل تھے جنہیں پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے نظر بند کر دیا گیا تھا۔
ان میں سے کئی افراد رہا کیے جا چکے ہیں جب کہ کئی دوسرے اب بھی نظر بند ہیں۔
نظر بندی کے خاتمے کے بعد عمر فاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ موجودہ صورتِ حال پر فوری تبصرے کے بجائے جمعے کو سرینگر کی جامع مسجد میں اپنے خطاب کے دوران اظہارِ خیال کریں گے۔
اگر میر واعظ کو تاریخی جامع مسجد میں جانے کی اجازت مل گئی تو یہ ڈیڑھ سال میں پہلا موقع ہو گا جب علیحدگی پسند رہنما وہاں خطاب کریں گے۔
جامع مسجد کے امام سید احمد سعید نقشبندی اور کشمیری علما اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ علما نے گزشتہ دنوں یہ الزام لگایا تھا کہ میر واعظ عمر کو سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روکا جا رہا ہے۔
'جمہوری عمل کو بحال کرنے کا وقت آ گیا'
تجزیہ کار پروفیسر نور احمد بابا نے میر واعظ عمر کی نظر بندی کو ختم کرنے کے اقدام کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں شخصی اور جمہوری آزادیاں بحال کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
اُن کے بقول بھارتی حکومت کے ان اقدامات سے امن کی راہ ہموار ہو گی۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے میر واعظ عمر کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اُن کی ظالمانہ نظر بندی کے خاتمے کا سن کر خوشی ہوئی۔
اُنہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ جموں و کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں قید دیگر سینکڑوں کشمیریوں کو بھی رہا کیا جائے۔
'حکومت سے اختلاف ملک سے غداری نہیں'
ادھر بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی کشمیر کے سابق وزیرِ اعلٰی فاروق عبداللہ کے خلاف بغاوت کے الزامات پر مبنی پٹیشن یہ کہہ کر خارج کر دی کہ حکومتی پالیسیوں سے اختلافِ رائے کو بغاوت نہیں کہا جا سکتا۔
خیال رہے کہ فاروق عبداللہ نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ اس آرٹیکل کو چین اور پاکستان کی مدد سے بحال کرایا جائے گا۔
فاروق عبداللہ کی پارلیمنٹ کی رُکنیت منسوخ کرنے کے لیے رجت شرما نامی شہری نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں مفادِ عامہ کی ایک درخواست دائر کی تھی۔