بھارتی فلم انڈسٹری پرسات دہائیوں تک راج کرنے والی معروف گلوکارہ اور بالی وڈ میں دیدی کہلائی جانے والی لتا منگیشکر ممبئی میں 92 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق ان کا انتقال چھ فروری کی صبح سوا آٹھ بجے متعدد اعضاکے کام چھوڑنے کی وجہ سے ہوا۔
لیجنڈری گلوکارہ گزشتہ ماہ کرونا وائرس کا شکار ہوئی تھیں جس کے بعد سے وہ ممبئی کے ایک اسپتال میں زیرِِ علاج تھیں۔ان کی وفات پر بھارت میں دو روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔
لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929 کو بھارت کے شہراندور میں پیدا ہوئی تھیں، ان کے والد دیناناتھ منگیشکر خود ایک موسیقار تھے جس کی وجہ سے ان کے تمام بچوں جن میں آشا بھوسلے ، اوشا منگیشکر اور بھائی ہریدیناتھ منگیشکر شامل تھےمیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا۔
سن 1942 میں والد کے انتقال کے بعد 13سالہ لتا گلوکاری کی طرف آئیں۔ 1940 کی دہائی میں جب بالی وڈ میں نور جہاں کا طوطی بولتا تھا تب لتا نے فلم'بڑی ماں' کے ذریعے گلوکاری اور اداکاری کی جانب قدم رکھا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 'بڑی ماں' میں نورجہاں نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا جب کہ لتا منگیشکر کی بہن آشا بھوسلے بھی ایک مختصر کردار میں اس فلم میں نظر آئی تھیں۔ البتہ بعد میں ان دونوں نے اپنے کریئر کو صرف گلوکاری تک ہی محدود رکھا۔
سن 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد لتا منگیشکر کا کریئر پروان چڑھا۔نورجہاں کی پاکستان منتقلی اور بالی وڈ میں نئی ہیروئنوں کی آمد کی وجہ سے تمام موسیقاروں نے لتا منگیشکر کو موقع دیا جس میں موسیقار اعظم نوشاد سرِفہرست تھے۔
اداکار دلیپ کمار اور فلم ساز محبوب خان نے لتا کے کریئر کے شروع میں ان کے اردو کے تلفظ پر اعتراض اٹھایا تھا۔ لیکن موسیقار نوشاد نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ایک دن لتا کو ان کے درست تلفظ ہی کی وجہ سے سب جانیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
لتا منگیشکر نے 1940 سے 2010 کی دہائی کے درمیان 36 سے زائد زبانوں میں 30 ہزار سے زائد گیت گائے جس میں ہندی فلموں کے لیے گائے گئے گانوں کی تعداد سب سے زیاد ہ ہے۔
معروف گلوکارہ نے جہاں محمد رفیق، مکیش اور کشور کمار جیسے نامور گلوکاروں کے ساتھ گانے گئے تو وہیں کمار سانو، اڈت نارائن اور سونونگم کے ساتھ بھی گائے ہوئے ان کے گانے مقبول ہوئے۔
لتا منگیشکر نے موسیقار نوشاد علی سے لے کر اے آر رحمٰن، روشن سے راجیش روش، ایس ڈی برمن سے آر ڈی برمن تک سب ہی موسیقاروں کی دھنوں پر اپنی آواز کا جادو جگایا۔
دہائیوں پر محیط طویل کریئر کے دوران لتا منگیشکرکے کئی گانوں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے، آج بھی فلم 'محل' میں گایا ہوا ان کا گیت 'آئے گا آنے والا' اتنا ہی مقبول ہے جتنا ریلیز کے وقت تھا۔
فلم 'مغل اعظم' میں گائے ہوئے ان کے تمام ہی گانے آج بھی لوگوں کویاد ہیں جن میں 'پیار کیا تو ڈرنا کیا' سرفہرست ہے۔
اداکار و ہدایت کار منوج کمار کی فلم 'شور 'کا گانا 'اک پیار کا نغمہ ہے' ہو یا راج کپور کی 'بوبی' کا 'جھوٹ بولے کوا کاٹے' یا 'ہم آپ کے ہیں کون 'کا 'دیدی تیرا دیور دیوانہ'، لتا نے جس دہائی میں جو بھی گیت گایا، اسے ان کے مداحوں نے پسند کیا۔
لتا منگیشکر کے کریئر کے آغاز پر بھارتی فلم انڈسٹری میں ان کے مقابل گیتا دت جیسی گلوکارہ تھیں۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں لتا کا مقابلہ اپنی ہی بہن آشا بھوسلے سے تھا جنہیں اوپی نیر جیسے کئی موسیقارلتا پر ترجیح دیتے تھے۔
اسی کی دہائی میں لتا کو انورادھا پوڈوال، الکا یاگنگ اور دیگر نوجوان گلوکاروں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن لتا منگیشکر کو نہ کسی نے نمبر ون پوزیشن سے ہٹایا نہ ہی کوئی ان کی جگہ لے سکا۔
انہوں نے اپنے زمانے کی لگ بھگ تمام ہی نامور اداکاروں نرگس، مدھوبالا، نوتن، ہیما مالنی، زینت امان، پروین بابی، تنوجا، جیا بچن، ڈمپل کپاڈیہ، سری دیوی، کاجول، مادھوری ڈکشٹ اور جوہی چاولہ کے لیے پلے بیک کیا۔
ان کے ایوارڈ ز کی فہرست میں صرف فلمی ایوارڈز ہی شامل نہیں ، بلکہ انہیں بھارت کے سب سے بڑے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جس میں بھارت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ بھارت رتن بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ انہیں پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور دادا صاحب پھالکےایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
لتا منگیشکر کو ان کی مدھر آواز کی وجہ سے پوری دنیا میں بالی وڈ کی پہچان سمجھا جاتا تھا، اسی لیے انہیں سال 2009 میں موسیقی کی خدمت کے اعتراف میں فرانس کا سب سے بڑا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔