رسائی کے لنکس

ملکہ برطانیہ کا ستر سالہ دورِ اقتدار: ایک اتفاق جو طویل ترین حکمرانی میں بدل گیا


اپنے 70 سالہ دورِ حکومت نے ملکہ برطانیہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن اس طویل ترین دورِ حکمرانی کا آغاز ایک اتفاق کا نتیجہ تھا۔
اپنے 70 سالہ دورِ حکومت نے ملکہ برطانیہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن اس طویل ترین دورِ حکمرانی کا آغاز ایک اتفاق کا نتیجہ تھا۔

ملکہ الزبتھ برطانیہ پر طویل ترین عرصے تک حکومت کرنے والی برطانوی فرماں روا ہیں۔ چھ فروری کو انہیں ملکہ بنے 70 سال مکمل ہو رہے ہیں اور ان کی حکمرانی کی پلاٹینم جوبلی منائی جا رہی ہے۔

الزبتھ الیگزینڈرا میری ونڈسر (ملکہ الزبتھ کا پورا نام) 21 اپریل 1926 کو لندن میں پیدا ہوئیں۔ان کی پیدائش کے وقت دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر برطانیہ کی حکومت تھی۔سلطنتِ برطانیہ کی وسعت کے بارے میں گزشتہ صدی کے وسط تک یہ کہا جاتا تھا کہ اس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔

جب ملکۂ الزبتھ دوم تخت نشیں ہوئیں تو دنیا کے کئی خطوں میں تاجِ برطانیہ کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا تھا۔لیکن وہ اب بھی رسمی طور پر برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک کی سربراہِ ریاست ہیں۔

اپنے اس 70 سالہ دورِ حکومت میں ملکہ برطانیہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن اس طویل ترین دورِ حکمرانی کا آغاز ایک اتفاق کا نتیجہ تھا۔

حادثاتی بادشاہت

برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کے دوسرے بیٹے جارج ششم کے گھر 21 اپریل 1926 کو جنم لینے والی الزبتھ الیگزینڈرا شاہی خاندان کا حصہ تو ضرور تھیں لیکن انہوں نے خود بھی کبھی تصور نہیں کیا ہوگا کہ ایک دن ان کے سر پر بادشاہت کا تاج سجے گا۔

الزبتھ کے والد جارج ششم سے پہلے ان کے بڑے بھائی ایڈورڈ ہشتم برطانیہ کے بادشاہ تھے جو 20 جنوری سے 11 دسمبر 1936 تک اس منصب پر براجمان رہے۔ایڈورڈ ایک طلاق یافتہ امریکی خاتون ویلس وارفیلڈ سمپسن کی محبت میں گرفتار تھے اور ان سے شادی کرنا چاہتے تھے۔

ملکہ الزبتھ اپنے شریکِ حیات شہزادہ فلپ کے ساتھ۔
ملکہ الزبتھ اپنے شریکِ حیات شہزادہ فلپ کے ساتھ۔

برطانیہ میں بادشاہ یا ملکہ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ چرچ کے تحت شادی کا رشتہ پوری زندگی کے لیے ہوتا ہے اور طلاق یافتہ افراد کا شریکِ حیات اگر زندہ ہو تو کسی اور سے اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔ طلاق کے بعد ویلس کے سابق شوہر چوں کہ بقید حیات تھے تو اسی بنیاد پر چرچ بادشاہ کی ان سے شادی کی مخالفت کررہا تھا۔شاہی خاندان اور چرچ آف انگلینڈ کی سخت مخالفت کے باوجود ایڈورڈ نے ویلس سے اپنی شادی کا ارادہ ترک نہیں کیا البتہ بادشاہت چھوڑ دی۔

ایڈورڈ کے اس فیصلے کے نتیجے میں ان کے چھوٹے بھائی اور الزبتھ کے والد جارج ششم کو برطانیہ کی بادشاہت ملی۔یہ وہی بادشاہ جارج ہیں جنہیں ہکلاہٹ کی شکایت تھی اور اس پر قابو پانے کے لیے ان کی مستقل مزاجی سے کی گئی کوششوں کو 2010 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کنگز اسپیچ‘ میں دکھایا گیا ہے۔

جارج ششم کی موت کے بعد 1954 میں صرف 25 برس کی عمر میں الزبتھ ملکہ بنیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ اس معاملے پر چرچ کے مؤقف میں نرمی آئی اور 2018 میں شہزاہ ہیری کی طلاق یافتہ امریکی اداکارہ میگھن مرکل سے شادی پر چرچ آف انگلینڈ معترض نہیں ہوا۔

یہ اتفاق ہی کا نتیجہ تھا کہ ان کے والد کے بڑے بھائی نے محبت کی خاطر تاج کو ٹھکرا دیا جس کے بعد بادشاہت پہلے ان کے والد کو ملی اور پھر ملکہ الزبتھ کے حصے میں آئی۔ آج وہ اس منصب پر سب سے طویل عرصے تک فائز رہنے والی برطانوی حکمران بن چکی ہیں۔

’ثابت قدم‘ ملکہ

الزبتھ دوم اس دور میں ملکہ بنی تھیں جب برطانیہ 1946 میں ختم ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے اثرات سے نکل رہا تھا۔ انہوں ںے اپنے دور میں کئی وزرائے اعظم، صدور، پوپ بدلتے دیکھے۔ سرد جنگ اور پھر سوویت یونین کا انہدام بھی اسی ستر سالہ تاریخ کا حصہ ہے۔

انہوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور کرونا کی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے غیرمعمولی حالات بھی دیکھے۔ ان ستر برسوں میں دنیا کی سیاست اور سماج میں کئی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن وہ نہ صرف اپنے منصب پر برقرار رہیں بلکہ انہیں برطانیہ میں استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

ماضی میں شاہی فرماں روا اپنی کسی خصوصیت کی بنا پر دیے گئے لقب کی وجہ سے بھی یاد رکھے جاتے ہیں مثلاً برطانیہ میں ولیم فاتح، الفریڈ اعظم وغیرہ۔ شاہی مؤرخ ہیوگو وکرز کا کہنا ہے کہ ملکہ الزبتھ کی زندگی کو دیکھا جائے تو ان کے لیے ایک ’ثابت قدم‘ کا لقب ذہن میں آتا ہے۔

تاجپوشی ٹیلی وژن اور نئی روایات

ملکہ کے طویل ترین دور میں برطانیہ کی بادشاہت کا تسلسل برقرار رہا ہے لیکن اس میں کئی جدتیں بھی آٗئیں۔ ان میں سے بعض نئی روایات کا آغاز انہوں نے ملکہ بننے سے پہلے کر دیا تھا۔ 1945 میں وہ فوجی خدمات انجام دینے والی شاہی خاندان کی پہلی خاتون بن چکی تھیں۔

دو جون 1953 کو جب ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی ہوئی تو یہ پہلا موقع تھا کہ اس شاہی تقریب کو براہ راست ٹیلی وژن پر نشر کیا گیا۔ دنیا میں کروڑوں لوگوں نے پہلی بار یہ منظر ٹی وی پر دیکھا۔

تاجپوشی کی اس رسم کی براہ راست نشریات ٹی وی اور برطانوی شاہی خاندان کے لیے ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔ اس کے بعد سے عام شہریوں کو شاہی خاندان کی طرزِ زندگی اور رہن سہن سے متعلق معلومات تک مزید رسائی حاصل ہوئی۔

سن 1957 میں پہلی مرتبہ کرسمس کے موقع پر ملکہ کا پیغام ٹی وی پر نشر ہوا تھا جسے انہوں نے عوام کے ساتھ براہ راست اور ذاتی سطح کے رابطے میں ایک قدم آگے بڑھنے سے تعبیر کیا تھا۔

نوآبادیاتی دور کا خاتمہ اور ’تبدیلی کی ہوا‘

افریقہ میں گھانا برطانوی نوآبادیات میں شامل آخری ملک تھا جسے 1957 میں آزادی مل گئی تھی۔ اس کے تین سال بعد برطانیہ کے وزیرِ اعظم ہیرالڈ میک ملن نے جنوبی افریقہ میں ’تبدیلی کی ہوائیں‘ کے عنوان سے مشہور ہونے والی تقریر کی تھی۔اس تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں پسند کریں یا نہ کریں، بڑھتا ہوا قومی شعور ایک سیاسی حقیقت بن چکا ہے۔

افریقہ اور کیربیئن میں برطانیہ کی زیادہ تر نوآبادیات ایک ایک کرکے آزاد ہو چکی تھیں۔ 1997 میں ہانگ کانگ چین کے حوالے کرنے کے بعد برطانوی سلطنت کا باب بند ہو گیا۔

اگرچہ آج بھی برطانیہ کی حدود سے باہر 14 مختلف علاقے اور جزائر ایسے ہیں جو ملکہ کی سلطنت میں شامل ہیں اور وہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا سمیت دولتِ مشترکہ کے 15 ممالک کی سربراہِ مملکت ہیں لیکن یہ حکمرانی سے بڑھ کر ایک روایت کے تسلسل کی صورت ہی میں برقرار ہے۔

عوام سے میل جول

ملکہ الزبتھ 1970 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر گئیں تو اس موقع پر انہوں ںے ایک اور نئی روایت کا آغاز کیا۔ اس دورے میں پہلی مرتبہ وہ عوام میں گھل مل گئیں، ان سے مصافحہ کیا اور عام لوگوں سے گپ شپ بھی کی۔

اس کے بعد سے عوامی مقبولیت کے لیے یہ طریقہ شاہی خاندان کا معمول بن گیا۔ خاص طور پر شہزادی ڈیانا کو اس طرح عوامی میل ملاپ سے سب سے زیادہ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔

ہولناک سال

سن 1981 میں ملکہ کے بیٹے شہزادہ چارلس کی ڈیانا سے شادی روایتی انداز میں ہوئی اور یہ جوڑا عالمی سطح پر عوامی توجہ کا مرکز بنا۔ لیکن بعدازاں جب یہ شادی ٹوٹی تو برطانیہ کے شاہی خاندان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔

بعدازاں 1990 کی دہائی میں شاہی خاندان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی۔ 1992 میں ملکہ کے چار میں سے تین بچوں کی شادیاں ٹوٹیں اور اسی لیے انہوں نے اسے شاہی خاندان کے لیے ’ہولناک سال‘ قرار دیا۔

ڈیانا کی موت

اگست 1997 میں شہزادی ڈیانا کی پیرس میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاکت کو عوامی سطح پر ایک صدمہ تصور کیا گیا۔ برطانیہ میں اس سانحے پر ملکہ کی لاتعلقی کو محسوس کیا گیا۔

اس موقع پر قومی پرچم کو سرنگوں نہ کرنے اور حادثے سے متعلق ملکہ کی خاموشی پر بھی تنقید کی گئی۔ اس واقعے کے کئی دن بعد شدید عوامی دباؤ پر بالآخر ملکہ نے ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بطور ملکہ اور دادی میں آپ سے مخاطب ہوں اور ہم اپنے اپنے طریقے سے اس صدمے سے گزرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سو سال بعد آئرلینڈ کا دورہ

مئی 2011 میں ملکہ سو سال کے دوران آئرلینڈ کا دورہ کرنے والی پہلی برطانوی فرماں روا تھیں۔ ان سے قبل 1911 میں بادشاہ جارج پنجم نے آئرلینڈ کے آزاد ریاست بننے سے ایک دہائی قبل وہاں کا دورہ کیا تھا۔

ملکہ نے اپنے دورے کے موقعے پر دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مشکلات برداشت کرنے والوں سے اظہارِ ہمدردی کیا تھا۔ ان کے اس دورے کو دونوں اقوام کے درمیان مفاہمت کے لیے تاریخی قرار دیا گیا تھا۔

ڈائمنڈ جوبلی اور لندن اولمپکس

ملکہ کی تخت نشینی کے 60 برس مکمل ہونے پر 2012 میں ان کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات منائی گئیں اور اسی برس لندن میں موسمِ سرما کے اولمپکس کا انعقاد بھی ہوا۔

مبصرین کے مطابق اس دور میں برطانیہ کے شاہی خاندان کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا۔ ملکہ کی ڈائمںڈ جوبلی تقریبات سے ایک برس قبل ان کے پوتے شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن کی شادی کی وجہ سے عوام کو خوشگوار پیغام ملا تھا۔

ایک اور مشکل سال

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران برطانیہ کے شاہی خاندان کو ایک بار پھر دو بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں ملکہ کے پوتے شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن امریکہ منتقل ہوگئے اور اپنے انٹرویو میں شاہی خاندان پر نسل پرستانہ رویے کا الزام عائد کیا۔ہیری اور میگھن 2020 میں شاہی ذمے داریوں سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔

ملکہ الزبتھ شہزادہ فلپ کی آخری رسومات کے موقعے پر۔ فائل فوٹو۔
ملکہ الزبتھ شہزادہ فلپ کی آخری رسومات کے موقعے پر۔ فائل فوٹو۔

اسی برس ملکہ کے منجھلے بیٹے شہزادہ اینڈریو پر جنسی ہراسانی کے الزامات سامنے آٗئے۔ وہ امریکہ میں جنسی زیادتی کے مقدمے کا سامنا کررہے ہیں جس میں ایک خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ شہزادہ اینڈریو نے انہیں اس وقت جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا تھا جب اس خاتون کی عمر 17 برس تھی۔

گزشتہ ماہ شہزادہ اینڈریو سے فوجی اعزازات واپس لے لیے گئے ہیں۔ اس فیصلے کو ان سے شاہی خاندان کے فاصلہ اختیار کرنے کا اشارہ قرار دیا جارہا ہے۔

دیرینہ جیون ساتھی کی جدائی

نو اپریل 2021 کو ملکہ برطانیہ کے شوہر پرنس فلپ کے انتقال کے ساتھ 73 سال کا یہ ساتھ ختم ہوا۔ سات دہائیوں پر محیط اس سفر میں شہزادہ فلپ ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ رہے۔

شہزداہ فلپ کی موت کے بعد ملکہ کی حکمرانی وہ دور شروع ہو گیا ہے جس میں وہ اپنی زیادہ تر ذمے داریاں اپنے جانشین پرنس چارلس کے سپرد کرچکی ہیں۔

کیا یہ ’سنہرا دور‘ تھا؟

بعض مبصرین ملکہ الزبتھ کے ستر سالہ دور کو ایک سنہرا دور قرار دیتے ہیں اور چار صدیاں قبل برطانیہ کی حکمران رہنے والی ان کی ہم نام ملکہ الزبتھ اول سے ان کا موازنہ کرتے ہیں۔ الزبتھ اول کے دورِ حکمرانی کو برطانیہ کے لیے عظیم ترین دور قرار دیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس بعض مبصرین کے مطابق ملکہ کی سب سے بڑی کامیابی یہی رہی کہ وہ ہمہ گیر سماجی اور معاشی تغیرات کے باوجود برطانیہ میں اپنے خاندان کی بادشاہت برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔

لندن سٹی یونیورسٹی میں شاہی تاریخ کی پروفیسر اینا وائٹلوک کے مطابق بادشاہت میں کسی حکمران کی سب سے بڑی کامیابی حکومت کا تسلسل اور جانشینی کو یقینی بنانا سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے ملکہ ایک کامیاب حکمران ہیں۔

ملکہ انٹرویو نہیں دیتیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی سیاسی موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اپنا موازنہ الزتبھ اول سے کرنے پر ایک بار اپنے کرسمس پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ صاف بات یہ ہے کہ وہ خود کو اپنے عظیم اجداد جیسا محسوس نہیں کرتیں۔

ان کے قریبی مشیر نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ملکہ کے نزدیک ان کے دورِ حکومت سے متعلق تعین کرنا لوگوں کا کام ہے وہ خود اس بارے میں کوئی رائے دینا مناسب نہیں سمجھتیں۔

’مزید ستر سال نہیں!‘

برطانیہ میں بعض حلقے بادشاہت ختم کرنے کے حامی ہیں۔ ایسے افراد برطانیہ میں ’ری پبلک‘ کے نام سے ایک گروپ کی صورت میں منظم ہیں۔ملکہ برطانیہ کے ستر سال مکمل ہونے پر اس گروپ نے ’مزید ستر سال نہیں‘ (ناٹ این ادر سیونٹی) کے عنوان سے مہم شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

'ری پبلک' سے تعلق رکھنے والے گراہم سمتھ کا کہنا ہے کہ اگرچہ بادشاہت کے گن گانے والی ایک اقلیت ملکہ کے ستر سال مکمل ہونے پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے لیکن ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ دستور سے متعلق بحث کا ایک سنجیدہ موقع آ پہنچاہے۔ چارلس سربراہ مملکت کے طور پر بہترین انتخاب نہیں ہیں۔ بطور قوم ہم اپنے سربراہ کے انتخاب کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق رائے عامہ کے مختلف جائزوں میں آج بھی برطانوی عوام کی اکثریت ملک میں بادشاہت کی حامی ہے اور ملکہ بھی عوام میں مقبول ہیں۔ لیکن ان کے بڑے بیٹے اور جانشین چارلس کے لیے عوام میں زیادہ حمایت نہیں پائی جاتی۔ ایک سروے کے مطابق نوجوانوں میں بادشاہت کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG