رسائی کے لنکس

بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کا رابطہ، سرحدی کشیدگی کم کرنے پر 'اتفاق'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان سفارتی سطح پر رابطہ ہوا ہے اور دونوں ممالک 'لائن آف ایکچوئل کنٹرول' پر جلد از جلد کشیدگی کم کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بدھ کو چین کے سینئر سفارت کار وانگ یی اور بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنگر کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ دونوں اعلیٰ عہدے داروں نے بھارت اور چین کے درمیان لداخ میں ہونے والی جھڑپ کے معاملے پر گفتگو کی ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وانگ یی نے سبرامنیم جے شنکر کو کہا کہ بھارتی حکومت اس واقعے کے ذمہ داروں کو سخت سزا دے اور فرنٹ لائن پر موجود اپنے فوجیوں کو کنٹرول کرے۔

دوسری جانب بھارتی وزارتِ خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے چین سے سرحدی کشیدگی کے معاملے پر احتجاج کیا اور بھارتی وزیرِ خارجہ نے اپنے چینی ہم منصب کو کہا کہ چین کے فوجیوں نے پہل کی اور منصوبہ بنا کر ایکشن کیا۔

بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان لداخ کی متنازع سرحد پر جھڑپ کے بعد کشیدگی بدستور برقرار ہے اور دونوں ملکوں نے سرحد پر اضافی فوجی دستے تعینات کر دیے ہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت نے مسلح افواج کو 'لائن آف ایکچوئل کنٹرول' پر بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر ہنگامی بنیادوں پر اسلحہ حاصل کرنے اور اسے ذخائر میں شامل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

چین بھارت جھڑپ کے بعد کشمیر میں فوجی نقل و حرکت
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:06 0:00

رپورٹس کے مطابق چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کو مسلح افواج کے تینوں شعبوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کا کام سونپا گیا ہے جب کہ بھارتی بحریہ اور فضائیہ کو بھی اپنا ساز و سامان تیار رکھنے کا کہا گیا ہے۔

بھارتی حکومت کا کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ

دوسری جانب سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیرِ اعظم ہاؤس کے آفیشل اکاؤنٹ سے جاری ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرحدی کشیدگی پر تبادلۂ خیال کے لیے کل جماعتی کانفرنس 19 جون کو شام پانچ بجے ہو گی۔

ٹوئٹ کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں کے صدور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوں گے۔

بعدازاں کرونا وائرس پر ریاستی وزرائے اعلٰی سے ورچوئل اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ قوم کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ گلوان وادی میں چینی افواج کے ساتھ جھڑپ میں بھارتی جوانوں کی قربانی ضائع نہیں جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت امن چاہتا ہے لیکن اگر اسے اشتعال دلایا گیا تو وہ دنداں شکن جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ان کے بقول عوام کو یہ جان کر فخر ہو گا کہ ہمارے جوان چینی فوجیوں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ملک میں اتحاد اور یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔

دریں اثنا چین نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ سرحد پر مزید کشیدگی نہیں چاہتا اس لیے دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے صورت حال کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاؤ لی جیان نے بدھ کو جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ چین کو جھڑپ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے بقول سرحد پر مجموعی صورتِ حال مستحکم اور قابو میں ہے۔

امریکہ کا ردعمل

دریں اثنا امریکہ نے کہا ہے کہ وہ پرتشدد جھڑپ کے بعد کی صورت حال پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے اور اسے امید ہے کہ پر امن انداز میں اختلافات کو دور کر لیا جائے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارتی فوج کے اعلان کے مطابق 20 بھارتی جوان ہلاک ہوئے ہیں۔ ہم ان کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ چین اور بھارت کی کشیدگی ختم کرانے کے لیے ثالثی کی پیش کش کی تھی جسے چین نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔

اقوام متحدہ کا اظہار تشویش

اقوامِ متحدہ نے چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے مذاکرات خوش آئند تھے۔ تاہم فریقین کے درمیان سرحدی جھڑپ پر عالمی ادارے کو تشویش ہے۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے بھی کہا ہے کہ امریکہ صورت حال کو بغور دیکھ رہا ہے اور کشیدگی کے پرامن حل کی حمایت کرتا ہے۔

واضح رہے کہ مشرقی لداخ کے علاقے گلوان ویلی میں ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر پیر اور منگل کی درمیانی شب دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔

بعد ازاں ​بھارت کی فوج نے تصدیق کی تھی کہ جھڑپ میں اس کے 20 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔بھارتی خبر رساں ادارے 'اے این آئی' کے مطابق جھڑپ کے دوران زخمی ہونے والے چار بھارتی اہلکاروں کی حالت تشویش ناک ہے۔

دونوں ملک اس جھڑپ کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض بھارتی ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ جھڑپ میں چین کا بھی جانی نقصان ہوا ہے۔

چین کی وزارتِ دفاع نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جھڑپ میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ آیا جھڑپ میں چین کا بھی کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔

البتہ بھارتی خبر رساں ادارے 'پریس ٹرسٹ آف انڈیا' نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے حکومتی ذرائع نے امریکی خفیہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین کے ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد 35 ہے۔

بھارت کے معروف صحافی اور دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل سے گفتگو میں کہا کہ یہ بھارتی فوج کو پہنچنے والے جانی نقصان کی اہمیت کم کرنے اور اس کے سیاسی مضمرات کو ٹالنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔

بیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد منگل کی شب نئی دہلی میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی ہوا تھا جس میں آرمی چیف منوج مکند نرونے اور چار سینئر وزیروں نے شرکت کی تھی۔

حزبِ اختلاف کی بھارتی حکومت پر تنقید

دوسری جانب بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعتیں فوجیوں کی ہلاکت پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کیوں خاموش ہیں اور وہ کیا چھپا رہے ہیں۔

انہوں نے بدھ کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بس اب بہت ہو گیا ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ سرحد پر کیا ہوا ہے، چین کی ہمارے فوجیوں کو قتل کرنے اور ہماری زمین پر قبضے کی ہمت کیسے ہوئی۔

ادھر خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پیر کی شپ ہونے والی اس جھڑپ سے متعلق بھارتی فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان جھڑپ میں آتشیں اسلحے کا استعمال نہیں ہوا۔

رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے سیکڑوں فوجی اہلکاروں نے ایک دوسرے پر لاتوں، مکوں، گھونسوں اور لوہے کی راڈوں کا استعمال کیا اور پتھراؤ بھی کیا۔

بھارتی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ جھڑپ ایسے موقع پر ہوئی جب دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے سلسلے میں اجلاس جاری تھا۔

چین نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت متنازع سرحد کو عبور کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ چینی فوجیوں پر حملے کا ذمہ دار ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاؤ لی جیان نے منگل کو جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ بھارتی فوج نے پیر کو دو مرتبہ سرحد کو عبور کیا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپ ہوئی۔

نئی دہلی میں اعلیٰ حکام کی بیٹھک

سرینگر سے وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل کے مطابق واقعے کے بعد نئی دہلی میں وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور مسلح افواج کے تینوں شعبوں کے سربراہان سے بند کمرے میں ملاقات کی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق عجلت میں بلائی گئی اس میٹنگ میں وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے دوراں گلوان وادی میں پیش آئے واقعے پر مشاورت کی گئی اور آئندہ حکمتِ عملی کے بارے میں چند اہم فیصلے کیے گئے۔

چین اور بھارتی فوج کے افسران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے مذاکرات بھی ہوچکے ہیں۔ (فائل فوٹو)
چین اور بھارتی فوج کے افسران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے مذاکرات بھی ہوچکے ہیں۔ (فائل فوٹو)

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ کئی ہفتوں سے سرحد پر کشیدگی جاری ہے جس میں کمی کے لیے فریقین کی فوج کے سینئر رہنماؤں کے درمیان بات چیت کا عمل بھی جاری تھا۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ مشرقی لداخ سیکٹر میں بھارت کی طرف سے ایک سڑک اور پل کی تعمیر ہے جس پر چین کو اعتراض ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تعمیر متنازع علاقے میں ہو رہی ہے۔ تاہم بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنی سرحد کے اندر کر رہا ہے۔

ہفتے کو بھارت کی برّی فوج کے سربراہ منوج موکنڈ نراوانے نے کہا تھا کہ علاقے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ چین کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔

حالیہ دنوں میں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ لداخ کے مقام پر دونوں ملکوں کی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ دونوں ملکوں میں 3500 کلو میٹر طویل سرحد کی مستقل حد بندی اب تک نہیں ہوئی ہے۔ سرحدی حد بندی پر دونوں ملکوں کا الگ الگ مؤقف ہے۔ 1962 میں سرحدی تنازع پر دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG