بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو کیرالہ میں بین المذاہب شادیوں کی تحقیقات کے دوران اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکوں سے شادی کرنے اور مذہب اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ایجنسی کے اہلکاروں کے مطابق اُنہیں ان معاملات میں قانونی کارروائی کرنے کے لیے کسی بڑی سازش کے شواہد نہیں ملے۔
اخبار ہندوستان ٹائمز نے ایجنسی کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے، جس نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر تفصیلات فراہم کیں، کہا ہے کہ این آئی اے اس بارے میں سپریم کورٹ میں مزید کوئی رپورٹ داخل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اس کے نزدیک اب یہ کیس بند ہو چکا ہے۔
این آئی اے نے 89 شادیوں میں سے 11 کی جانچ کی۔ سپریم کورٹ نے لو جہاد کے معاملات کی جانچ کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم کیرالہ کی ایک 24 سالہ خاتون ہادیہ عرف اکھیلا کی ایک مسلم نوجوان شافعین جہاں سے شادی کے تناظر میں دیا گیا تھا۔
کیرالہ ہائی کورٹ نے ہادیہ کے والد کی اس شکایت پر کہ اس کو جبراً مسلمان بنا کر اس سے شادی کروائی گئی ہے، مئی 2017 میں اس شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ لیکن جب شافعین اور ہادیہ نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا تو عدالت عظمیٰ نے ہادیہ کا بیان سننے کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور یہ کہتے ہوئے کہ لڑکی بالغ ہے اور اس کو اپنا شریک حیات چننے کا پورا حق ہے، شادی کو برقرار رکھا تھا۔
این آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق جن گیارہ معاملات کی جانچ کی گئی ان کا تعلق ایک مسلم جماعت پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) سے ثابت ہوا ہے جو مبینہ طور پر قبول اسلام کرنے والے غیر مسلموں کی مدد کرتی ہے۔ لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر قانونی کارروائی کی جا سکے۔
پی ایف آئی کی سیاسی شاخ ایس ڈی پی آئی کے قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ لو جہاد کا پروپیگنڈہ ایک سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے پی ایف آئی پر پابندی عائد کی تھی مگر اسے اٹھا لینا پڑا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ جو مسلم تنظیمیں دعوت دین اور انسانی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہیں ان کو خاص طور پر ہدف بنایا جاتا ہے اور ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ پی ایف آئی پر پابندی لگانے کے لیے یہ جھوٹا بہانہ بنایا گیا تھا کہ لوگوں کو لالچ دے کر اور زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔ لیکن اب این آئی اے نے اس سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
تسلیم رحمانی کے مطابق آئین نے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن جب کوئی غیر مسلم مذہب اسلام قبول کرتا ہے تو غلط الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقی تبدیلی مذہب کے بھی خلاف ہیں۔
خیال رہے کہ ہندوتوا وادی تنظیموں کی جانب سے کئی برسوں سے لو جہاد کی بات کہی جا رہی ہے اور یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ مسلم نوجوان ایک سازش کے تحت ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھانستے، ان سے شادی کرتے اور ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ اس کام کے لیے ایک ایک نوجوان کو دس دس لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ انتخابات کے مواقع پر خاص طور پر اٹھایا جاتا ہے۔
مسلمانوں اور ان کی تنظیموں کی جانب سے اس الزام کی سختی سے تردید کی جاتی رہی ہے۔ ہادیہ اور شافعین کی شادی کے بارے میں بھی یہی پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ ہادیہ سے شادی کرکے اس کا مذہب بدلوایا گیاجبکہ اس نے پہلے ہی قبول اسلام کیا تھا اور ا سکے کئی ماہ کے بعد جب خلیج میں کام کرنے والے ایک نوجوان شافعین کی بھارت واپسی پر اس کی اس سے ملاقات ہوئی تب دونوں نے شادی کی۔
اب جبکہ این آئی اے کو ان کی شادی کے معاملے میں لو جہاد کا ثبوت نہیں ملا تو شافعین نے فرضی اسٹوری چلانے پر دو نیوز چینلوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔