رسائی کے لنکس

جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سینسر شپ کا توڑ


’’انکرپٹ‘‘ دنیا بھر میں آزادی صحافت کے لیے خطرناک سمجھنے جانے والے ملکوں میں سینسر شپ کے مقابلے کے لیے ایک ہتھیار کے طو رپر استعمال ہو سکتا ہے

پاکستان میں کافی عرصے سے صحافی سینسرشپ کی شکایت کر رہے ہیں جس میں نیوز ویب سائٹس کو بندکرنا، اخبارات کی ترسیل کو روکنا اور پروگرامز کو ریاستی اداروں اور پالیسیوں پر تنقید سے باز رکھنا وغیرہ شامل ہے۔ ایسے میں چند پاکستانی امریکی نوجوانوں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا ہے جس کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ آن لائن موجود اہم مواد کو بانٹنے کے طریقوں کو محفوظ بناکرصحافت کی آزادی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

محمد علی چودھری امریکی ریاست میسی چوسسٹس میں موجود ہارورڈ یونیوسٹی میں شروع کیے جانے والے ایک سٹارٹ اپ ’’ انکرپٹ‘‘ کے شریک بانی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب پاکستان میں ہائی سکول میں تھے تو ان کے پاس یو ٹیوب کی ایکسس نہیں تھی ۔ اور انھیں پاکستان سے باہر کی دنیا کی ایک مکمل تصویر تک رسائی مشکل تھی۔اور اس کی وجہ وہ بتاتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر موجود تمام معلومات کا منبع چند سرورز ہیں جن کا کنٹرول حکومتوں اور اداروں کے ہاتھ میں بھی ہو سکتا ہے ۔اور جب کسی گورنمنٹ کو انفارمیشن تک رسائی بند کرنی ہوتی ہے تو وہ سرور کو ریکویسٹ کرتا ہے یا سرور کو بلاک کردیا جاتا ہے ۔

inkrypt team
inkrypt team

​اسی کشمکش میں جب علی چودھری جب اعلی تعلیم کے لیے امریکہ منتقل ہوئے تو انھیں آزادی معلومات کا گہرا إحساس ہوا۔ اور انھوں نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر انکرپٹ کی بنیاد رکھی۔ جو جدید بلاک چین ٹیکنالوجی پر مشتمل ایک ایسا آن لائن پلیٹ فارم ہے جو حکومتوں اور اداروں کے کنٹرول میں نا ہو۔ محمد علی چودھری کے مطابق آسان الفاظ میں یہ ایک سینسرشپ ریسسٹنس پلیٹ فارم ہے جس پر جرنلسٹس اور میڈیا ہاوسز ہر طرح کا کانٹینٹ شیئر کرسکتے ہیں۔ اور لوگ اس تک باآسانی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔اور چونکہ یہ کسی سرور پر نہیں، تو کوئی بھی اس کانٹینٹ کو بلاک نہیں کر سکتا۔

inkrypt
inkrypt

وردہ چودھری بھی انکرپٹ کی شریک بانی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انکرپٹ کا بنیادی نقطہ ہے کہ ہمارا ماننا ہے کہ معلومات تک رسائی ہر شخص کا بنیادی حق ہے ۔اور اس مقصد کے لیے انکرپٹ بلاک چین پر مبنی یہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہا ہے۔ جس کے ذریعے لوگ محفوظ اورٹمپرنگ کے بغیراہم مواد آن لائن شیئر کر سکیں خاص طور پر وہ لوگ جو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔

بلاک چین کمپیوٹرز کا ایک ایسا نیٹ ورک ہوتا ہے جس میں شامل ہر فرد کے پاس ان نیٹورک میں ہونے والی کسی بھی قسم کی ٹرانزیکشن کی مکمل کاپی ہوتی ہے۔ جب کوئی تبدیلی آتی ہے یا کوئی اور ٹرانزیکشن ہوتی ہے تو تمام لوگ اپنے اپنے نیٹ ورک کو اَپ ڈیٹ کر لیتے ہیں۔ اور اس طرح اگر کوئی جعلی ٹرانزیکشن ہوتی ہے یا کوئی شخص نیٹورک پر موجود مواد کو ہٹانے یا تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو باقی لوگ اسے چیک کرتے ہیں، اور اگر اس میں کوئی خرابی ہے تو اُسے مسترد کر دیتے ہیں اس طرح یہ مواد تبدیل یا ڈیلیٹ نہیں کیا جاسکتا۔​

​علی چودھری کا کہنا ہے کہ انکرپٹ عام لوگوں اور سٹیزن جرنلسٹس کے لیے بڑی نیوز آرگانائزیشن کے مقابلے میں زیادہ مددگار ثابت ہو گا۔ علی چودھری اور وردہ چودھری سمیت انکرپٹ کے پانچ شریک بانی ہیں فرحان جاوید، روحان چودھری اور ارقم جاوید۔ جو تمام پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں ہیں اور پاکستان میں میڈیا سنسرشپ کے بارے میں کچھ کرنا چاہتے تھے۔

inkrypt presentation
inkrypt presentation

​انکرپٹ کے فاونڈرز کا کہنا ہے کہ ان کے آزادی صحافت کے تحفظ کے خیال کو حقیقت میں بدلنے میں ہارورڈ یونیورسٹی کی انوویشن لیب نے ان کی بہت مدد کی۔ اور انھیں ایسے وسائل فراہم کیے جن کی مدد سے ’’انکرپٹ‘‘ نے اپنے اس سٹارٹ اپ کو امریکہ سمیت چین، کینیڈا اور جرمنی کے مخلتف شہروں میں متعارف کروایا ہے۔ انکرپٹ کے کو فاونڈر فرحان جاوید کا کہنا ہے کہ انکرپٹ دنیا بھر میں آزادی صحافت کے لیے خطرناک سمجھنے جانے والے ملکوں میں سینسر شپ کے مقابلے کے لیے ایک ہتھیار کے طو رپر استعمال ہو سکتا ہے۔ اور ان کی کوشش ہوگی کہ انکرپٹ کو جلد ہی پاکستان، عراق اور ترکی جیسے ملکوں میں متعارف کروایا جا سکے۔

ویڈیو رپورٹ۔

میڈیا پر سینسر شپ کا توڑ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:46 0:00

XS
SM
MD
LG