امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادی مذہب کی رپورٹ میں 16 ملکوں کو ’’خاص تشویش‘‘ کا حامل قرار دیا گیا ہے۔
کمیشن جسے ایوان کے دونوں اطراف کی حمایت حاصل ہے، دنیا بھر میں مذہبی آزادی کا جائزہ لیتا ہے، اور صدر، وزیر خارجہ اور کانگریس کو اپنی سفارشات پیش کرتا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کی مریاما دیالو نے ِاس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ فہرست میں چند ملک ہی کیوں شامل ہیں، جس میں ایک عظیم طاقت والے ملک کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
بیس سال میں پہلی بار، امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے روس کو خصوصی تشویش کا باعث ملک قرار دیا ہے، ’’جس کی مطلق العنان پالیسیاں‘‘، بقول اِس کے، ’’بڑھتی جا رہی ہیں، جن کا دائرہ انتظامی طور پر ہراساں کرنے اور بلا امتیار قید و بند کے ہتھکنڈوں کے استعمال پر مشتمل ہے‘‘۔
ڈینئل مارک، ’امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘ کے سربراہ ہیں۔
اُن کے الفاظ میں ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومتِ روس کو امریکی صدر کی جانب سے صاف الفاظ میں، براہِ راست، خصوصی طور پر واضح کر دینا ہوگا کہ ہمیں اُس کی مذہبی آزادی کی سمت پر تشویش لاحق ہے۔ نا صرف قوانین بلکہ سمت کے اعتبار سے، جو مدت سے تشویش کا باعث معاملہ رہا ہے، اور جو ہمارے فیصلے پر اثرانداز ہوا ہے‘‘۔
گذشتہ ماہ، روسی عدالت عظمیٰ نے ’جنوواز وٹنیسز‘ کے مذہبی گروپ سے متعلق فیصلہ دیتے ہوئے اُسے ’’شدت پسند‘‘ تنظیم قرار دیا تھا، جس کو بتایا گیا تھا کہ وہ اپنی تمام ملکیت ریاست کے حوالے کر دے۔ رابرٹ وارن نے بذریعہ اسکائیپ بتایا تھا کہ ’’اس طرح سے بیان کرنا جیسا کہ ہم انتہاپسند ہیں، یہ صاف طور پر شدت پسندی کے قانون کی غلط تشریح ہے۔ واضح طور پر، جینوواز وٹنیسز کو ہدف نہیں بنایا جانا چاہیئے تھا، کیونکہ ہم روس، دنیا یا کسی دوسرے ملک کے لیے خطرے کا باعث نہیں۔ ہم 240 ملکوں میں متحرک کردار ادا کرتے ہیں‘‘۔
وارن نے کہا ہے کہ روس میں 175000 افراد اپنی شناخت مذہب کے لحاظ سے کراتے ہیں؛ اور اس فیصلے کے بعد، ویب سائٹ پر تنظیم کی شناخت بلاک کردی گئی ہے، اور جنوواز وٹنیسز کی بائبل تک کو ملک میں لانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
میانمار میں، حکومت اور معاشرتی امتیاز روہنگیا مسلمانوں کو غیر محفوظ بناتے ہیں، جن میں سے کچھ اپنا وطن تک چھوڑ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہیں۔ مسیحیوں کو کھلے عام عبادت کی اجازت نہیں، جنھیں بودھ مت اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جس کے باعث اس ملک کو خصوصی تشویش کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، حکومت اور فوج تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
کمیشن نے پاکستان کے بارے میں سفارش کی ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کو منسوخ کیا جائے، چونکہ کسی نہ کسی اعتبار سے یہ انسانی حقوق کے آفاقی دستور کی شق 18 سے متصادم ہے۔
رپورٹ میں 35 ملکوں کو شامل کیا گیا ہے؛ جس کے مصنفین کا کہنا ہے کہ جب معاملہ آزادیِ مذہب کا ہو، تو اِس پر نئی انتظامیہ کو اقدام کرنا ہوگا۔
ریورنڈ ٹھومس ریز، ’یو ایس کمیشن فور رلیجس فریڈم‘ کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ آزادیِ مذہب کے معاملے کو اپنی خارجہ پالیسی میں اولیت دے‘‘۔