وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا ہے کہ ’کراچی کی صورتحال کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔۔۔ جب کہ، شہر میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور آگے بھی مزید تبدیلیاں آئیں گی۔‘
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے ہمراہ مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’شہر میں بھتہ خوری، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سمیت دیگر جرائم پر قابو پالیا گیا ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رینجرز کی سپورٹ، صوبائی حکومت اور ایم کیو ایم کو راضی رکھنا۔۔ وزارت داخلہ کا کام تھا، ’اور ہم نے اپنی ذمے داری احسن طریقے سے نبھائی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’غیر ضروری طور پر سول ملٹری تعلقات پر رائے زنی نہ کی جائے۔ دنیا میں کہیں بھی سیکورٹی معاملات پر سیاست نہیں ہوتی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پاکستان کی سیکورٹی پالیسی ہے، اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے میڈیا نمائندوں کو یہ بھی بتایا کہ گزشتہ 8 مہینوں سے نیشنل ایکشن پلان پر کام ہو رہا ہے۔2013 ءمیں ملک میں روزانہ 4 سے 5 دھماکے ہوتے تھے،2010 میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے،2009 میں ایک ہزار938 دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں، جبکہ 2006 میں ملک بھرمیں 1ہزار444 دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔
چودھری نثار نے کہا کہ تمام صوبوں میں پاک فوج ’تھرڈ لائن آف ڈیفنس‘ہے۔ اس وقت 9 فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں؛ اور آپریشن کا فیصلہ کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کے بعد کیا گیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ جب سے ’ضرب عضب‘ شروع ہوا ہے، 11 ہزار انٹیلی جنس بیس آپریشن ہوچکے ہیں، سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیز اپنی کارکردگی کا ڈھول نہیں بجا سکتیں۔
بقول اُن کے، ’چاروں صوبوں میں ایک ایک ہزار تعداد میں انسداد دہشت گردی کی فورس موجود ہے، دہشت گردی کے تمام نیٹ ورکس توڑ دیے ہیں، کسی نجی گروپ یا ملیشیا کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں، جب کہ14 کروڑ موبائل فون سمز کی تصدیق کی گئی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’فرقہ واریت میں ملوث افراد کیخلاف زمین تنگ کردی جائے گی، یہ برداشت نہیں کیاجائے گا کہ ایک دوسرے کو کافر کہا جائے‘۔