واشنگٹن —
اظہارِ رائے کی آزادی کا جائزہ لینے والے ایک امریکی ادارے نے کہا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
'فریڈم ہاؤس' نامی ادارے نے انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کی صورتِ حال سے متعلق جمعرات کو جاری کی جانے والی اپنی نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی نگرانی، نئے قوانین کے نفاذ اور 'سوشل میڈیا' صارفین کی گرفتاریوں نے انٹرنیٹ کی آزاد ذریعۂ اظہار کی حیثیت متاثر کی ہے۔
ادارے نے اپنی رپورٹ میں مئی 2012ء سے اپریل 2013ء کے عرصے کے دوران میں دنیا کے 60 مختلف ممالک میں انٹرنیٹ پر کنٹرول کے لیے کیے جانے والے سرکاری اقدامات کا جائزہ لیا ہے۔
رپورٹ میں ایران، کیوبا اور چین کو انٹرنیٹ پر عائد قدغنوں اور اپنے باشندوں کی انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی روکنے والے ممالک میں سرِ فہرست قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ایرانی حکومت پر تنقید کرنے والے ایک بلاگر کی دورانِ حراست موت کا بھی بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کے علاوہ سابق سوویت ریاستیں، بیلاروس اور ازبکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں کی حکومتیں، 'فریڈم ہاؤس' کے مطابق، انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کی راہ میں حائل ہیں۔
آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور روس کو انٹرنیٹ پرعائد پابندیوں کے اعتبار سے نسبتاًآزاد ممالک قرار دیا گیا ہے جب کہ آرمینیا، جارجیا اور یوکرین میں انٹرنیٹ کو مکمل طور پر آزاد قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں جن 60 ممالک میں انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی، انٹرنیٹ پر موجود مواد تک بلا روک ٹوک رسائی اور صارفین کے حقوق کی خلاف ورزیوںکا جائزہ لیا گیا ہے، ان میں سے 34 کی رینکنگ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔
'فریڈم ہاؤس' کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران میں پابندی کا شکار ویب سائٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جب کہ مختلف ملکوں میں انٹرنیٹ صارفین کی گرفتاریوں، ان پر تشدد اور آن لائن اظہارِ رائے کی پاداش میں قتل جیسی کاروائیوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق بعض جمہوری اور مہذب ممالک میں بھی انٹرنیٹ پر پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے جو، 'فریڈم ہاؤس' کے مطابق، حکومتوں کی جانب سے آزادیٔ اظہارِ رائے اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
رپورٹ میں امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' کی جانب سے لاکھوں امریکی شہریوں کے آن لائن ڈیٹا اور رابطوں کی نگرانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں، رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 'انٹرنیٹ فریڈم' کا معیار گرا ہے۔
'فریڈم ہاؤس' نامی ادارے نے انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کی صورتِ حال سے متعلق جمعرات کو جاری کی جانے والی اپنی نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی نگرانی، نئے قوانین کے نفاذ اور 'سوشل میڈیا' صارفین کی گرفتاریوں نے انٹرنیٹ کی آزاد ذریعۂ اظہار کی حیثیت متاثر کی ہے۔
ادارے نے اپنی رپورٹ میں مئی 2012ء سے اپریل 2013ء کے عرصے کے دوران میں دنیا کے 60 مختلف ممالک میں انٹرنیٹ پر کنٹرول کے لیے کیے جانے والے سرکاری اقدامات کا جائزہ لیا ہے۔
رپورٹ میں ایران، کیوبا اور چین کو انٹرنیٹ پر عائد قدغنوں اور اپنے باشندوں کی انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی روکنے والے ممالک میں سرِ فہرست قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ایرانی حکومت پر تنقید کرنے والے ایک بلاگر کی دورانِ حراست موت کا بھی بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کے علاوہ سابق سوویت ریاستیں، بیلاروس اور ازبکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں کی حکومتیں، 'فریڈم ہاؤس' کے مطابق، انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کی راہ میں حائل ہیں۔
آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور روس کو انٹرنیٹ پرعائد پابندیوں کے اعتبار سے نسبتاًآزاد ممالک قرار دیا گیا ہے جب کہ آرمینیا، جارجیا اور یوکرین میں انٹرنیٹ کو مکمل طور پر آزاد قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں جن 60 ممالک میں انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی، انٹرنیٹ پر موجود مواد تک بلا روک ٹوک رسائی اور صارفین کے حقوق کی خلاف ورزیوںکا جائزہ لیا گیا ہے، ان میں سے 34 کی رینکنگ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔
'فریڈم ہاؤس' کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران میں پابندی کا شکار ویب سائٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جب کہ مختلف ملکوں میں انٹرنیٹ صارفین کی گرفتاریوں، ان پر تشدد اور آن لائن اظہارِ رائے کی پاداش میں قتل جیسی کاروائیوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق بعض جمہوری اور مہذب ممالک میں بھی انٹرنیٹ پر پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے جو، 'فریڈم ہاؤس' کے مطابق، حکومتوں کی جانب سے آزادیٔ اظہارِ رائے اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
رپورٹ میں امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' کی جانب سے لاکھوں امریکی شہریوں کے آن لائن ڈیٹا اور رابطوں کی نگرانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں، رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 'انٹرنیٹ فریڈم' کا معیار گرا ہے۔