ہومیو پیتھک ایک قدیم طریقہ علاج ہے جس کا آغاز انیسویں صدی سے قبل جرمنی میں ہوا تھا جو آہستہ آہستہ ساری دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
برطانیہ کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت کی جانب سے ایلو پیتھک علاج و معالجے کی مفت سہولت ہونے کے باوجود بہت سے لوگ پرائیوٹ ہومیو پیتھک علاج کروانا پسند کرتے ہیں جبکہ برطانیہ کا قومی ادارہ برائے صحت ’این ایچ ایس‘ کے کچھ ہسپتال اور جنرل فزیشن مریضوں کو ہومیو پیتھک دواؤں سے علاج کروانے کی بھی پیشکش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر افتخار حسین ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں جو کافی عرصے سے لندن کے علاقے ساؤتھ ہال میں ہومیوپیتھک کلینک چلا رہے ہیں انھوں نے وی او اے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم مرض کا نہیں بلکہ مریض کا علاج کرتے ہیں۔''
س: عام طور پر لوگوں میں ہومیو پیتھک علاج کے بارے میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں کہ۔ آیا یہ علاج اثر بھی کرے گا کہ نہیں؟ بہت سے لوگوں کی رائے میں دوائیں بہت سست روی سے اثر انداز ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ علاج ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یا پھر اکثر کے نزدیک ہومیو پتھک علاج کروانے والے افراد وہ ہوتے ہیں جو ایلوپیتھک علاج سے مایوس ہو کر اس طرف مائل ہوتے ہیں ؟
ج: میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہومیو پتھک علاج کی کامیابی ہے کہ لوگ انگلش دواؤں سے فائدہ نا ہونےکے بعد ہم سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ ہمارے علاج کا کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں ہے، جہاں تک علاج کے سُست ہونے کا تعلق ہے تو ایلو پیتھی علاج میں بھی ہائی بلد پریشر اور ذیابیطس کے مریض ساری زندگی دوائیں کھاتے ہیں جو کہ ان کے مرض کا علاج نہیں ہوتی ہیں جبکہ ہمارے پاس ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے لیے دوا موجود ہے جو مرض کو جڑ سےاکھاڑ کر پھینک سکتی ہیں لیکن جو لوگ محض ٹائم پاس سمجھ کر علاج کرواتے ہیں تو ایسے لوگوں کو کسی قسم کا علاج مطمئن نہیں کر سکتا کیونکہ علاج میں افاقہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب علاج پر اعتقاد کیا جائے اور دوائیں پابندی سے استعمال کی جائیں ۔
ڈاکٹر افتخار کا کہنا تھا کہ ہومیو پیتھک علاج میں ہر مرض کی دوا موجود ہے شرط صرف ایک اچھے تجربہ کار ڈاکٹر کی ہے جو مرض کی صحیح تشخیص کرے کیونکہ ہومیو پیتھک علاج میں مرض کی اصل وجہ تک پہنچنے کے لیے مریض سے اس کے دن رات کے معمولات معلوم کیے جاتے ہیں اور مرض کی وجہ کا علاج کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک سر درد کا مریض کسی ایلوپیتھک ڈاکٹر سے علاج کرواتا ہے تو اسے پین کلر دوا دی جاتی ہے جو علاج نہیں ہے لیکن ہومیو پیتھی میں ایک سر کے درد کے مریض سے پوچھا جاتا ہے کہ اسے یہ درد دن کے کون سے پہر میں ہوتا ہے، درد ٹھنڈ میں بڑھتا ہے یا گرمی سے اس کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد مریض کی کیفیت کے مطابق دوا تجویز کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر افتخار کہتے ہیں کہ، ’پاکستان کے حوالے سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہاں گلی محلوں میں ہومیو پیتھک کلینک کا بورڈ نظر آتا ہے لیکن میں انھیں ڈاکٹر نہیں مانتا ہوں جبکہ ایک اچھے ہومیو پیتھک ڈاکٹر کی کلینک کے باہر آج بھی قطاریں نظر آتی ہیں۔‘
ڈاکٹر افتخار نے مزید بتایا کہ، ’میرے مریضوں میں زیادہ تر پاکستان، انڈیا بنگلہ دیش اور سری لنکا کے افراد شامل ہیں ان میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جو عام طور پر گھٹنے کے درد یا جلد کے مسائل لے کر آتی ہیں۔ جلد کےمسائل کے لیے ہماری دوائیں آزمودہ ہیں خاص طور پر برطانیہ میں ایگزیما کی بیماری بچوں میں بہت زیادہ ہے اس کا ہومیو پیتھک میں شرطیہ علاج موجود ہے۔ اسی طرح بچوں کی بھوک بڑھنے، یرقان اور موٹاپے کے لیے بہت ہی اچھی ادویات موجود ہیں۔‘
برطانیہ میں ہومیو پیتھک علاج کو پسند کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس علاج پر بھروسہ کرتے ہیں اگر این ایچ ایس لوگوں کو انتخاب کا حق دے تو بڑی تعداد میں لوگ ہومیوپیتھی علاج کی جانب مائل نظر آئیں گے۔