پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی درس گاہوں میں طالب علموں کے درمیان تصادم اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے واقعات سامنے آنے اور عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رویے نہ صرف عمومی طور پر معاشرے کے لیے بلکہ ماہرینِ تعلیم کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔
گزشتہ ماہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک بڑی سرکاری جامعہ قائداعظم یونیورسٹی میں طالب علموں کی دو تنظیموں کے درمیان تصادم اور فائرنگ سے لگ بھگ 30 طالب علم زخمی ہو گئے تھے جب کہ واقعے کے بعد کئی روز تک یونیورسٹی بند رہی تھی۔
اس سے قبل مئی میں لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں پشتون اور جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کے درمیان تصادم ہوا تھا جب کہ اپریل میں خیبر پختونخواہ کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طالب علموں نے توہین مذہب کے الزام میں اسی درسگاہ کے ایک طالب علم مشال خان کو تشدد اور گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، جس کی نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی مذمت کی گئی تھی۔
یہ تمام صورتِ حال ماہرین تعلیم اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ان حالات کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹیوں پر ڈال دینا درست نہیں ہے۔
لیکن اُن کا یہ بھی موقف ہے کہ یونیورسٹیوں میں برادشت کے کلچر کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ طالب علموں کو کھل کر بات کرنے دی جائے اور زبردستی کی بجائے دلیل سے دوسروں کو قائل کرنے کے رجحان کو فروغ دیا جائے۔
پشاور یونیورسٹی کے 'انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز' کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جمیل احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسکول کی سطح سے بچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ خود فیصلہ کرنے کے بجائے اساتذہ سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔
’’جب تک بچے کو پرائمری میں یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ جب آپ کو کسی بچے سے شکایت ہو تو آپ نے والدین کی بجائے ٹیچر کو بتانا ہے اور ٹیچر نے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔۔۔۔ پیچھے سے بھی نظام خراب ہے اور یونیورسٹیوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
محمد ریحان طاہر 'پی ایچ ڈی' کے طالب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں پیش آنے والے واقعات اس بات کی واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے۔
’’اس کی ایک بنیادی وجہ تعلیمی نصاب کے علاوہ اساتذہ کا طالب علموں کے ساتھ رویہ بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ، کونسل آف سوشل سائنسز کے نائب صدر اور ماہر تعلیم ہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس صورت حال کا محض سطحی حل تلاش کرنے کی بجائے معاشرے میں پائے جانے والے رویوں کو سمجھے اور اُن کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
’’سماج میں کیا ہو رہا ہے، یہ بچے ہمارے گھروں سے آ رہے ہیں۔ اگر ہمارے گھروں میں مار پیٹ کا رواج بڑھ گیا ہے تو بچے بھی ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھائیں گے چاہیں وہ اسکول میں ہوں یا یونیورسٹی میں ہوں۔‘‘
ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ کہتے ہیں کہ بچوں کی سوچ اور سوالات کو دبانے کی بجائے اُنھیں کھل کر بات کرنے کا موقع دینے کی ضرورت ہے۔
’’ماحول کو کھولنے کی ضرورت ہے، ہمیں کلچر کے پروگرام کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ جب آپ یہ چیزیں کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ایک جنریشن میں یہ چیزیں مٹتی چلی جائیں گے۔‘‘
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں مختلف حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ معاشرے میں خاص طور پر نوجوانوں میں برداشت کے رویوں کو پروان چڑھانے اور نئی نسل کے سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے یونیورسٹوں میں بحث مباحثوں کے انعقاد کے علاوہ خود نوجوانوں کو اس عمل میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔